اسلام آباد: گزشتہ ماہ سامنے آنے والے آن لائن بینکنگ فراڈ کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ متعلقہ بینک نے معاملہ چھپانے کی کوشش کی جس سے بینکنگ سیکٹر کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 44 ممالک میں موجود ہیکرز نے ’ویزا‘ کے ذریعے رقم کی منتقلی کے طریقہ کار کو نشانہ بنایا جس کے بعد بینک اور بین الاقوامی طور پر رقوم کا تبادلہ کرنے والی کمپنی نے ایک انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ ماہر کی خدمات حاصل کی تا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک بین الاقوامی ماہر کی رپورٹ کا انتظار ہے جس سے بینکنگ سیکٹر اور ایف آئی اے کو مدد ملے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے ہونے والے حملوں کو کس طرح روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر حملے کا معاملہ: 10بینکوں نے بین الاقوامی ٹرانزیکشن روک دی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے بھی مذکورہ معاملے کی تحقیقات کررہی ہے اور اس کے لیے ان 44 ممالک سے مدد بھی طلب کی گئی ہے جہاں سے ہیکرز کا تعلق ہے۔

ایک طرف پاکستان کا ان ممالک کے ساتھ ثبوتوں کے تبادلے یا مشترکہ تحقیقات کا معاہدہ موجود نہیں دوسری جانب ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کو بینکنگ سیکٹر سے بھی عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق کچھ حیرت انگیز معاملات سامنے آئے ہیں جن میں ایک ہی دن میں 5 لاکھ روپے کی خطیر رقم نکلوانا بھی شامل ہے جس کے بارے میں بینکنگ حکام نے جواب دینے سے گزیز کیا کہ اتنی بڑی رقم نکلوانے پر اے ٹی ایم نے انکار کیوں نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: بینک اپنے سائبر سیکیورٹی نظام کو بہتر بنائیں، ایف آئی اے

ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہماری تفتیش اس بات پر مرکوز نہیں کہ رقم کے مالکان کو ان کی رقم واپس ملے بلکہ ہماری کوشش ہے کہ مستقبل میں اس جرم کو دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

اس ضمن میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے بتایا کہ 2 نئے قسم کے فراڈ کے طریقہ کار’پیشنگ ‘ اور ’ویشنگ‘ سامنے آئے ہیں، پیشنگ میں دھوکہ دہندگان ای میل بھیج کے ذاتی معلومات دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ای میل متعلقہ بینک کی جانب سے بھیجی گئی معلوم ہوتی ہے۔

دوسری جانب ’ویشنگ‘ میں دھوکہ دہندگان کسی شخص کو کال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بینک کا نمائندہ یا سرکاری افسر ظاہر کر کے اس سے معلومات کی تصدیق کرنے کا کہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نجی بینک پر سائبر حملے کے بعد اسٹیٹ بینک کی تمام بینکوں کو نئی ہدایت

اس سلسلے میں بینک نے اکاؤنٹ رکھنے والے افراد کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی دیے گئے لنک سے اپنی آئی ڈی میں لاگن نہیں ہوں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ بینک کبھی آپ سے آپ کی آئی ڈی یا پاسورڈ نہیں پوچھتا۔

اس سلسلے میں سینیٹ اجلاس میں بتایا گیا کہ بینک اکاؤنٹس سے رقم نکالنے کے معاملے میں اکاؤنٹ ہولڈرز کو نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا کیوں کہ یہ ضمانت دہندہ کی ذمہ داری ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے سینیٹ میں جمع کروائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ صرف ایک بینک کے علاوہ دیگر بینکس کا ڈیٹا محفوظ ہے اور ان کا ڈیٹا ہیک نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: سائبر سیکیورٹی مزید سخت کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے ’گائیڈ لائنز‘ جاری کردیں

سینیٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبے کی حفاظت کی غرض سے ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے تا کہ کسی قسم کے سائبر حملے کی روک تھام کی جائے۔


یہ خبر 24 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں