زرداری،بحریہ ٹاؤن،اومنی گروپس کی زیرتفتیش جائیداد کی خریدوفروخت پر پابندی

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2018
سپریم کورٹ نے آصف زرداری، ملک ریاض کو نوٹس بھی جاری کردیے—فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے آصف زرداری، ملک ریاض کو نوٹس بھی جاری کردیے—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بتائی گئی زرادری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن گروپ کی جائیداد کی خریدو فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نے رپورٹ پیش کی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے کمرے میں پروجیکٹر لگانے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی سمری اوپن عدالت میں پروجیکٹر پر چلائی جائے گی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری تک توسیع

اس موقع پر چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے مالکان کے وکلا منیر بھٹی اور شاہد حامد سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے کہ اومنی گروپ کے مالکان کا غرور ختم نہیں ہوا، قوم کا اربوں روپے کهاگئے اور پهر بهی بدمعاشی کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے انور مجید کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور شفٹ کرنا پڑے گا، انور مجید کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں، آپ وکیل ہیں، آپ نے فیس لی ہوئی ہے، آپ کو سنیں گے لیکن فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے سابق صدر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ اربوں روپے کے کھانچے ہیں، معاف نہیں کریں گے۔

اس موقع پر کیس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا گیا، وقفے کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری، بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض اور زین ملک کو نوٹس جاری کردیے۔

بلاول ہاؤس کے خرچے جعلی اکاؤنٹس سے کیے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ

سماعت کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے آصف علی زرداری کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: آصف علی زرداری کی 'خفیہ جائیداد' سے متعلق علی زیدی کا انکشاف

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ کا خرچ جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کیا جاتا رہا، بلاول ہاؤس کے کتے کا کھانا اور 28 صدقے کے بکروں کے اخراجات بھی انہی اکاؤنٹس سے دیے گئے۔

عدالت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 27 لاکھ کے صدقے کے جانور، یعنی کتے کا کھانا بھی اومنی گروپ سے جارہا ہے؟

سربراہ جے آئی ٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق نے بتایا کہ کراچی اور لاہور کے بلاول ہاؤس کے اخراجات جعلی اکاؤنٹس سے ادا کیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور کا بلاول ہاؤس قانون کے مطابق بنا ہے؟

اس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ زرداری گروپ نے 53 ارب 40 کروڑ روپے کے قرضے حاصل کیے جبکہ 24 ارب روپے کا قرض سندھ بینک سے لیا گیا، حالانکہ سندھ بینک زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے کا قرض دے سکتا ہے، اس کے علاوہ اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کرکے قرض لیا۔

دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 53 ارب روپے کا تو صرف قرض ہے اور باقی جعلی اکاؤنٹس کی رقم کا کیا بنے گا؟

سماعت کے دوران ماڈل ایان علی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایان علی کہاں ہیں؟کیا وہ بیمار ہو کر پاکستان سے باہر گئیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بیمار ہو کر ملک سے باہر چلا گیا تو واپس لانے کا طریقہ کیا ہے؟

تمام افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے تمام افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ وزارت داخلہ کو درخواست دیں، ای سی ایل سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔

عدالت میں جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ 60 منزلہ آئیکون ٹاور کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ہے، بحریہ گروپ اور ڈنشا کے اس میں شیئرز ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئیکون ٹاور میں سرکاری زمین آتی ہے؟ کیا اس کا نقشہ منظور کروایا گیا؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ باغ ابن قاسم کی زمین بھی اس آئیکون ٹاور میں آتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ ڈنشا کون ہے؟ جس پر جے آئی ٹی نے بتایا کہ ڈنشا آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں۔

جے آئی ٹی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم بحریہ آئیکون کو دیکھ لیتے ہیں، جس پر انہیں بتایا گیا کہ آئیکون ٹاور غیرقانونی طور پر سرکاری زمین پر کھڑا کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس کے مالکان کون کون ہیں؟ جس پر جے آئی ٹی نے بتایا کہ زرداری گروپ کے 50 فیصد شیئرز ہیں جبکہ بحریہ گروپ کے زین ملک نے 27 ارب اس پر خرچ کیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کیا کہ ملک ریاض تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، جس پر طارق رحیم نے جواب دیا کہ میں اس کیس میں وکیل نہیں ہوں۔

عدالت میں جے آئی ٹی نے بتایا کہ ایک ارب 20 کروڑ روپے فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں گئے، فریال تالپور کے اکاؤنٹس سے لاہور بلاول ہاؤس اور ٹنڈوالہ یار کی زمین خریدی گئی۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کا بلاول ہاؤس کس کی ملکیت میں ہے؟ جس پر جے آئی ٹی نے کہا کہ پہلے تحفے میں دیا گیا تھا، بعد میں تحفہ واپس کرکے بحریہ ٹاؤن کو آدھی رقم ادا کردی گئی ہے۔

جے آئی ٹی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی یہ بحریہ گروپ اور زرداری گروپ کا ٹرائیکا ہے؟ سالگرہ، پاسپورٹ فیس، ایمرجنسی لائٹس کا بل اومنی گروپ سے دیا گیا؟ جس پر جے آئی ٹی نے بتایا کہ یہ ہر مرتبہ کمپنیاں تبدیل کرکے ادائیگیاں کرتے رہے۔

دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری کے دوپہر کے کھانے کا خرچہ 15 ہزار روپے ادا کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 15 ہزار کوئی بڑی رقم نہیں لیکن یہ رقم اومنی گروپ سے ادا کی گئی، ممکن ہے وہ اس کے شیئر ہولڈرز ہوں۔

اس پر جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ شیئر ہولڈرز ہوں اور پھر وہ ظاہر کردیں۔

عدالت کو جے آئی ٹی نے بتایا کہ پہلے یہ 23 کمپنیاں تھیں اور 2008 سے 2018 تک 83 کمپنیاں بن چکی ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کدھر ہیں؟ ہم کسی کے بتانے کے محتاج نہیں اگر وہ نہ آئے تو پکڑوا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، بجلی کے بل ادا نہیں کیے جا رہے، کیا ہمیں سمجھ نہیں آتی؟

انہوں نے کہا کہ کوئی کتنا بھی بیمار ہو، پیمپر کے ساتھ آ جائے گا، اب پراسکیوشن کو بلکہ انہیں خود یہ سب ثابت کرنا ہو گا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو کہہ دیں کہ وہ اپنا کیمپ آفس اسلام آباد میں قائم کرلیں اور تمام دستاویزات بھی لے آئیں۔

کیوں نہ انور مجید کو اسلام آباد میں ہی رہنے دیا جائے؟ چیف جسٹس

دوران سماعت چیف جسٹس نے انور مجید کے وکیل شاہد حامد سے مکالمہ کیا کہ انور مجید کہتے ہیں کہ اکائونٹس کی تفصیلات ایس ای سی پی سے لے لیں، کیوں نہ انور مجید کو اسلام آباد میں ہی رہنے دیا جائے؟

اس پر شاہد حامد ایڈووکیٹ نے کہا کہ انور مجید دل کے مرض میں مبتلا ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دنیا میں دل کا علاج نہیں ہوتا؟ اس پر شاہد حامد نے بتایا کہ انور مجید اومنی گروپ کو اب نہیں دیکھ رہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ انور مجید بزرگ ہوگئے ہیں اور اومنی گروپ کو نہیں دیکھ رہے تو ان کا کوئی بیٹا تو ہوگا؟ آپ بینچ کو کمزور نہ کریں، ہمیں پتہ ہے یہ ساری چیزیں کیسے گھمائی گئی ہیں۔

اس پر انور مجید کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ اومنی گروپ کا کیس نہیں سن سکتی اور فوجداری ٹرائل نہیں کرسکتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم آرٹیکل 184 کے تحت کارروائی کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کو حتمی اور مکمل قرار نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ میں بتائی گئی زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن گروپ کی جائیداد کی خرید و فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی۔

ساتھ ہی عدالت نے تمام فریقین کو دینے کا حکم دیتے ہوئے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو حکم دیا کہ وہ اس پر جواب جمع کرائیں، جس کے بعد عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 31 دسمبر تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں