واشنگٹن: معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوج کے مشیروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو راضی کرلیا ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کا عمل سست رفتاری سے ہوگا۔

امریکی اخبار کے مطابق امریکی فوج افغانستان سےکچھ ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے منصوبے کا مسودہ تیار کررہی ہے تاہم فوجی دستوں میں کی جانے والی اس کمی سے بڑے مشنز متاثر نہیں ہوں گے۔

مذکورہ مسودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر ترتیب دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔

امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ پینٹاگون نے بھی نصف فوجی دستوں کو واپس بلوانے کی تجویز دی ہے جو صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلے سامنے آئی تھی، اس سے اگست 2017 میں امریکی صدر کی جانب سے فوجی دستوں میں 3 ہزار 9 سو فوجیوں کا کیا گیا اضافہ بھی واپس ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی حکومت کے کم از کم 6 اعلیٰ حکام نے بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو افغانستان میں موجود 14 ہزار فوجی دستوں کی تقریباً آدھی تعداد کے انخلا کا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت دی تھی جس کی وجہ سے امریکی دفاعی ادارہ بتدریج انخلا کا مسودہ تیار کررہا ہے۔

اخباری رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ بڑی تعداد میں انخلا چاہتے ہیں اس کے باوجود پینٹاگون نے بہت کم تعداد میں فوجیوں کے انخلا کی تجویز دی جبکہ صدر کی خواہش 7 ہزار فوجی دستوں کے انخلا کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق فوجی مشیروں نے صدر ٹرمپ کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ فوج کی کم تعداد کا سست روی سے انخلا ہی موجودہ صورتحال میں بہتر ہے، اس کے باوجود حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا اور صدر کسی بھی وقت مکمل انخلا کا حکم دے سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ‘، ٹرمپ کا فوجیوں کے انخلا کے عزم کا دوبارہ اظہار

اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے اخبار سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’صدر نے افغانستان کے حوالے سے ہر اس شخص کا موقف سنا ہے جس کا وہ سن سکتے تھے ، لیکن انہوں نے شکایت کی کہ ان کے کئی مشیر چاہتے ہیں کہ ان جنگوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے گزشتہ ماہ انخلا کے منصوبے پر اختلاف رائے کے سبب استعفیٰ دے دیا تھا اگرچہ کم تعداد میں ہی فوجیوں کا انخلا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی صدر اگر اس وقت مان بھی گئے تب بھی وہ فوجوں کے انخلا کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر لنڈسے گراہم، جو امریکی گانگریس میں صدر کے قریبی اتحادی ہیں کا کہنا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں ہماری کارکردگی کے حوالے سے سخت مضطرب تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سابق امریکی کمانڈر کا افغانستان سے فوج کے انخلا پر خدشات کا اظہار

دوسری جانب افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل آسٹین ملر نے افغانستان کو یقین دہانی کروائی کہ امریکی فوجوں کے جزوی انخلا کے بعد بھی اپنے افغان ہم منصبوں کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر میرے پاس تعداد میں تھوڑی سی بھی کمی ٓائی تو ہمارے لیے ٹھیک ہے، ہم نے اس بارے میں پہلے بھی سوچا تھا لہٰذا آپ کو حمایت کی جتنی بھی ضرورت ہوئی ہم فراہم کریں گے۔


یہ خبر 10 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں