جرمنی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ ٹاؤں سے متعلق جرمن ٹیکسٹائل کمپنی (کے آئی کے) کے خلاف زرتلافی کا مقدمہ ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عدالت کے ترجمان نے مقدمہ ناقابل سماعت ہونے کی وجہ بتائی کہ ’سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے لواحقین نے واقعے کے 2 سال کے اندر مقدمہ دائر نہیں کیا‘۔

ترجمان نے کہا کہ ’ججز عدالت کے مقرر کردہ ماہرین کی رپورٹ پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن کمپنی کے خلاف سانحے کے 2 سال کے اندر مقدمہ کیا جانا چاہیے تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی: جرمنی کی عدالت میں مقدمہ دائر

واضح رہے کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں سانحے کا شکار ہونے والی فیکٹری میں جرمن ٹیکسٹائل کمپنی ’کے آئی کے‘ کے ملبوسات تیار ہوتے تھے۔

2012 میں فیکٹری میں آگ لگ جانے سے تقریباً 250 سے زائد ورکرز جاں بحق ہو گئے تھے۔

اس حوالے سے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی متاثرہ خاتون اور تین رشتہ داروں کی جانب سے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا کہ جرمن ٹیکسٹائل کمپنی ان چاروں کو فی کس 30 ہزار یورو زرتلافی کی مد میں ادا کرے۔

متاثرین کی جانب سے عدالت میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’اگرچہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں کے آئی کے ملوث نہیں لیکن کمپنی نے جائے حادثہ پر حفاظتی قواعد وضوابط کو نظر انداز کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ ٹاؤن: جرمنی میں ٹیکسٹائل کمپنی کے خلاف زرتلافی کا مقدمہ

عدالتی فیصلے کے بعد یورپی سینٹر برائے آئینی اور انسانی حقوق (ای سی سی ایچ آر) نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

متاثرین کے وکیل ریمو کلنگر نے کہا کہ ’بلدیہ فیکٹری کا اہم صارف کے آئی کے کمپنی تھی اس لیے فائر سیفٹی اقدامات سے لاپرواہی برتنے کی کچھ ذمہ داری کمپنی پر بھی عائد ہوتی ہے‘۔

واضح رہے کہ کے آئی کے کمپنی جاں بحق اور زندہ بچ جانے والوں کے لواحقین کو 60 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کر چکی ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ: فیکٹری مالکان کے بیانات ریکارڈ

لواحقین میں شامل سعیدہ خاتون نے عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’کے آئی کے کمپنی 258 پاکستانیوں کی موت کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی لیکن کم از اکم جرمنی کی عدالت نے پہلے مرحلے میں مقدمہ پر تو نظر ثانی کی۔'

خیال رہے کہ سعیدہ خاتون کا بیٹا بھی سانحے میں جاں بحق ہونے والے 258 افراد میں شامل تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں