بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی: جرمنی کی عدالت میں مقدمہ دائر

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2015
گیارہ ستمبر 2012ء میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں لگنے والی آگے کو فائربریگیڈ کے کارکن بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کی بدترین صنعتی آتشزدگی تھی۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
گیارہ ستمبر 2012ء میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں لگنے والی آگے کو فائربریگیڈ کے کارکن بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کی بدترین صنعتی آتشزدگی تھی۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے جرمنی کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جبکہ اسی طرح کا ایک مقدمہ اٹلی کی ایک عدالت میں اس کمپنی کے خلاف دائر کیا جائے گا، جس نے اس فیکٹری کو سوشل آڈٹ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔

فیکٹری متاثرین میں سے چار کے ورثاء نے جرمنی کے شہر دورٹمنڈ کی ریجنل عدالت میں جرمن برانڈ KIK کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں سوگوار خاندانوں میں سے ہر ایک کو تیس ہزار یورو بطور معاوضہ ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کے متاثرین کی ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور مزدور رہنماؤں نے کل کراچی پریس کلب پر اس پیش رفت سے میڈیا کو آگاہ کیا۔

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ناصر منصور نے اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ جرمن برانڈ KIK کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جس کی مصنوعات علی انٹرپرائز پر تیار کی جاتی تھیں۔ اس کمپنی نے معاوضے کی باقی رقم ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے چند دنوں میں متاثرین کے پندرہ ورثاء بھی اٹالین کمپنی RINA پر اٹلی کے شہر میلان میں مقدمہ کریں گی، جس نے علی انٹرپرائز کو سوشل آڈٹ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔

ناصر منصور نے بتایا کہ کارکنان اور ان کے خاندان کو گروپ انشورنس اور گریجویٹی کی ادائیگی کے لیے مقامی سطح پر ایک مقدمہ سندھ کے کمشنر برائے تلافی کے سامنے دائر کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ گیارہ ستمبر 2012ء کو بلدیہ ٹاؤن میں قائم علی انٹرپرائز فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زیادہ کارکن ہلاک اور بہت سے دیگر زخمی ہوئے تھے۔اسے ملکی تاریخ سب سے بدترین صنعتی آتشزدگی سمجھا جاتا ہے۔

اب تک ادا کیا گیا معاوضہ

سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے 2012ء میں جب کہ وہ وزیراعظم نہیں تھے، اس حادثے کے بعد فیکٹری کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکومت پنجاب متاثرین میں سے ہر ایک کے ورثاء کو دو لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ لیکن دو سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود اب تک متاثرہ خاندانوں کو یہ معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے۔

اسی طرح ایک ریئل اسٹیٹ کے ٹائیکون ملک ریاض نے متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان کیا تھا، لیکن اب تک 110 سے زائد ورثاء کو ادائیگی کی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اب تک اپنے وعدے کی تکمیل نہیں کی ہے، انہوں نے آتشزدگی کے متاثرین کے ورثاء کے لیے سرکاری ملازمت اور ایک پلاٹ کا وعدہ کیا تھا۔

آتشزدگی کے متاثرین کے ڈی این اے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کے متاثرین کی ایسوسی ایشن کے رہنما محمد جابر نے کہا کہ 23 سے زیادہ مزدوروں کے ڈی این اے سرٹیفکیٹ اب تک جاری نہیں کیے گئے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ سرٹیفکیٹ فوری طور پر جاری کیے جائیں۔

اس پریس کانفرنس کے موقع پر مقررین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مزدوروں کی زندگی کے تحفظ کے لیے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے سیفٹی اور ہیلتھ کنونشن پر عملدرآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کے حقوق کو محفوظ بنایا جائے، جسے یورپین یونین کے جی ایس پی پلس کے ذریعے خصوصی درجہ حاصل ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Rebel Mar 15, 2015 03:41am
پاکستانی عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار پاکستانی ریاست ہے جرمنی یا اٹلی نہیں۔۔۔۔