مہمند ڈیم ٹھیکا عوامی وسائل پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے، شہباز شریف

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2019
شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کررہے تھے—فائل/فوٹو: ڈان
شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کررہے تھے—فائل/فوٹو: ڈان

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفاقی حکومت کی غفلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہمند ڈیم کے ٹھیکے کے معاملے پر ہاؤس کمیٹی بننی چاہیے کیونکہ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے اور محدود عوامی وسائل پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے۔

قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں شہباز شریف نے ممند ڈیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘مہمند ڈیم بننے جارہا ہے جو ملک کے لیے خوش آئند بات ہے، مہمند ڈیم کا عمل پچھلے کئی برس سے جاری ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہماری حکومت کے زمانے میں اس کے ٹھیکے کا عمل شروع کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ٹھیکے کو پی ٹی آئی کی حکومت میں دیا گیا’۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘یہ بات روز روشن کی طرح عیاں رہنی چاہیے اور اس میں کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے، یہ ٹھیک بات ہے کہ یہ ٹھیکا پچھلی حکومت نے شروع کیا لیکن مہمند ڈیم کا ٹھیکا دینے کی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت کی ہے مسلم لیگ (ن) کی نہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ بات تو یہ ہے اس عمل میں کتنی شفافیت ہوئی اور کس حد سوالیہ نشان اٹھے ہیں، سنگل بولی کی اجازت پیپرا قوانین دیتے ہیں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ‘یہ ڈیم 800 میگاواٹ کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے 5 یا 6 سال چاہیے ہوں گے، کیا ایسے کون سی قیامت آگئی تھی کہ ایک بولی رہ گئی تھی اور دوسری بولی کو تیکنیکی اعتبار سے ناک آوٹ کردیا گیا تھا، ایک بولی تھی ڈیسکون اور چین کی گزوبا کمپنی تھی دوسری بولی بھی چینی کمپنی کی تھی جو تیکنیکی اعتبار سے آؤٹ ہوئی تو ایک بولی رہ گئی جس کی بنیاد پر یہ ٹھیکا دیا گیا’۔

ان کا کہنا تھا اس معاملے پر پیپرا رولز کو مدنظر رکھا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ایک بولی ہوتو بھی اس کو ٹھیکا دیا جاسکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے دور میں نظر ثانی کیے گئے ٹھیکے کا حوالہ دیتے ہوئے مہمند ڈیم پر شہباز شریف نے کہا کہ 'یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، شفافیت اور میرٹ کا ڈھونڈورا پیٹی رہی ہے اور اتنے بڑے منصوبے کی دوبارہ بولی دیتے کون جانتا کہ 309 ارب روپے کے بجائے ڈھائی سو ارب روپے، سوا دو سو ارب یا پونے 300 ارب کا مل جاتا اور شفافیت کا تقاضا تھا جس کو پورا کرنا تھا'۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ 'یہ مفادات کا ٹکراؤ بھی ہے، پیپرا رولز کی سفارشات کی بھی خلاف ورزی ہے، پاکستان کے عوام کے وسائل ہیں ان پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے اس لیے میری اس ہاؤس سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو فی الفور اسمبلی کے فلور پر دیکھنا چاہیے اور اس معاملے کو ایک ہاؤس کمیٹی کے سپرد کرنا چاہیے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھنا چاہیے'۔

'فوجی عدالتوں میں توسیع پر حکومت نے رابطہ کیا توسوچیں گے'

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی عدالتوں کے کردار اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملے پر رابطہ کیا تو سوچ بچار کریں گے۔

قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل کو رد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلا مرحلہ نواز شریف کی دوسری پٹیشن پر فیصلہ ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہییے اور اگلے مرحلے میں العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ اپیل سنے گی اور عدالت سے انصاف کی امید ہے۔

فوجی عدالتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی میں کمی آئی اورفوجی عدالتیں بننے سے دہشت گردوں میں خوف پیدا ہوا اور دہشت گردی میں بھی کمی آئی۔

یہ بھی پڑھیں:فوجی عدالتوں سے متعلق قانون پاس کرکے پارلیمان نے اپنی ناک کاٹی، بلاول بھٹو

شہباز شریف نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کو آگے بڑھنا چاہے اور فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیےحکومت نے رابطہ کیا تو سوچ و بچار کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حکومت نے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا تھا، فوجی عدالتوں، ضرب عضب اور ردالفساد کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ فوجی عدالتیں بنی تو اس کا خوف پیدا ہوا۔

مزید پڑھیں:حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر سنجیدہ نہیں، خورشید شاہ

یاد رہے کہ 2017 میں پہلی مرتبہ فوجی عدالتوں کو دو سالہ توسیع ملی تھی اور اس وقت کے صدر مملکت ممنون حسین نے قومی اسمبلی کے ایل کی منظوری دی تھی اور اس وقت اس معاملے پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذکرات کا طویل سلسلہ چلا تھا۔

دوسری جانب اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دسمبر میں واضح طور پر کہا تھا کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں کی دوبارہ توسیع کی حمایت نہیں کرے گے۔

فوجی عدالتوں کی دوسری میعاد رواں سال مارچ میں اختتام کو پہنچے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں