امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے غالباً فروری میں قتل کیے گئے اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کو جیل کے کیمپ میں مارنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 47 سالہ نوالنی پیوٹن کے ملک میں سب سے سخت ناقد تھے اور جب انہیں قتل کیا گیا تو حکومت کی جانب سے انتہا پسند قرار دیے گئے ان کے حامیوں نے پیوٹن پر ان کے قتل کا الزام لگاتے ہوئے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

کریملن نے اس قتل میں ریاست کے کسی بھی قسم کے کردار کی سختی سے تردید کی تھی۔

پچھلے ماہ پیوٹن نے نوالنی کے انتقال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جیل میں بند سیاستدان کو قیدیوں کے تبادلے میں مغرب کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں اور نوالنی کے اتحادیوں نے کہا تھا کہ اس طرح کی بات چیت جاری ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اس معاملے سے باخبر لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کے روز کہا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پیوٹن نے شاید فروری میں نوالنی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ واشنگٹن نے روسی رہنما کو نوالنی کی موت کے الزام سے مکمل طور پر بری نہیں کیا کیونکہ اپوزیشن رہنما برسوں سے روسی حکومت کے زیر عتاب تھے اور انہیں اسی وجہ سے جیل بھی بھیج دیا گیا تھا۔

2020 میں نوالنی کو زہر دیا گیا تھا اور روس نے اس واقعے میں بھی ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تھی۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ہفتے کے روز کہا کہ ہم نے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ دیکھی ہے جس میں صرف خالی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے مواد دیکھا ہے، میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ اتنا اعلیٰ معیار کا مواد ہے جس پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں