’سندھ میں شترمرغ کی فارمنگ کی اجازت ہے‘

15 جنوری 2019
ٹھٹہ میں شتر مرغ کی فارمنگ کے لیے ایک نجی فارم قائم کیا گیا ہے، ناصر حسین شاہ — فائل فوٹو
ٹھٹہ میں شتر مرغ کی فارمنگ کے لیے ایک نجی فارم قائم کیا گیا ہے، ناصر حسین شاہ — فائل فوٹو

کراچی: سندھ اسمبلی کو وقفہ سوالات و جوابات کے دوران بتایا گیا کہ صوبائی وائلڈ لائف قوانین کے مطابق شتر مرغ کو محفوظ پرندوں میں شمار نہیں کیا جاتا اور متعلقہ قوانین کے اندر اس کی فارمنگ کی اجازت ہے۔

صوبائی وزیر برائے جنگلات سید ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ شتر مرغ کی فارمنگ کے لیے صوبائی حکام سے خصوصی اجازت نامہ طلب کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹھٹہ میں شتر مرغ کی فارمنگ کے لیے ایک نجی فارم قائم کیا گیا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: شتر مرغ کے گوشت کی سستے داموں فروخت کا آغاز

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہالیجی جھیل، لنگھ جھیل، ٹھٹہ اور قمبر میں 15 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والے جنگلی حیات کی بحالی اور بہتری کے منصوبے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکے تاہم انہیں جون تک مکمل کرلیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہالیجی جھیل میں کام جاری ہے۔

اپوزیشن کی رکن نصرت سحر عباسی کی جانب سے ایک دیگر سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی اور جامشورو میں قیام گاہوں کی بحالی اور پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے 5 کروڑ روپے کا منصوبہ بھی جون 2019 میں مکمل ہوجائے گا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کے مکمل ہونے کی تاریخ میں بھی فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے 2 سال تاخیر کی گئی ہے۔

اپوزیشن کے رکن عارف مصطفیٰ جتوئی کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہید بے نظیر آباد میں پائی جنگل کو محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرافی ہنٹنگ: نایاب جانوروں کا ایسا شکار جو نقصاندہ نہیں

ان کا کہنا تھا کہ پائی جنگل میں شکار کی اجازت نہیں تاہم حکومت کے پاس اختیار ہے کہ قوانین پر نرمی کرتے ہوئے خصوصی کیسز میں شکار کی اجازت دے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے گزشتہ 5 سالوں میں شجرکاری اور جنگلات کی بحالی کے لیے استعمال ہونے والے بجٹ کے حوالے سے معلومات دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 18-2017 کے دوران 61 کروڑ 20 لاکھ روپے کا فنڈ ملا تھا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ فشریز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مچھلیوں کی شکار کی اجازت ملنے پر مقامی مچھیرے انڈس ڈولفن کا شکار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نایاب جاندار کی تعداد میں 2014 کے بعد اضافہ سامنے آیا تھا جب محکمہ فشریز نے شکار کے لائسنس دینا بند کیے تھے۔

وزیر نے اپوزیشن کے رکن کے سوال کے جواب میں اسمبلی کو بتایا کہ صوبے میں 12 جانداروں کو نایاب قرار دیا گیا ہے جن میں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں