لندن: یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے (بریگزٹ) میں تاریخی شکست کے باوجود برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف پارلیمنٹ میں 'تحریک عدم اعتماد' ناکام ہوگئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں تھریسامے 19ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بچانےمیں کامیاب ہوئیں۔

تحریک پر ووٹنگ کے دوران برطانوی وزیر اعظم کے حق میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ ڈالے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم

تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد تھریسامے نے 'بریگزٹ' پر بات چیت کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کو انفرادی طور پر ملاقات کی دعوت دے دی۔

انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ’میں پارلیمنٹ کے رہنماؤں کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ مجھ سے انفرادی طور پر ملاقات کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں آج رات ہی بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہوں گی‘۔

خیال رہے کہ اپوزیشن پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے بریگزٹ معاہدہ منظور نہ ہونے کے بعد تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا اور برطانوی وزیر اعظم نے عوام اور پارلیمنٹ کا اعتماد کھو دیا ہے۔

16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس کے بعد بریگزٹ کے معاملے پر دوبارہ بحث شروع کی جانی ہے۔

برطانوی دارالعوام میں منگل کو ووٹنگ ہوئی جس میں 432 اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیے جبکہ 202 نے وزیر اعظم کے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان

ووٹنگ سے قبل تھریسامے نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 2016 کے ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ برطانوی عوام کے اس جمہوری فیصلے پر ہم نتائج دیں۔

انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس معاہدے کے خلاف ووٹ سے غیریقینی اور بٹوارے کی صورتحال جنم لے گی جس کے بعد کسی بھی قسم کا معاہدہ نہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

ووٹنگ کے وقت معاہدے کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد پارلیمنٹ کے باہر جمع تھی جو اپنی کامیابی کی امید کے ساتھ ہاتھوں میں ڈھول اور بانسریوں سمیت دیگر آلات کے ہمراہ موجود تھے جبکہ کچھ افراد نے پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت کے باہر ریلی بھی نکالی۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹ سے قبل برطانوی وزیر نے ’پلان بی‘ پیش کردیا

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا رہا اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعدازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بریگزٹ بل کی توثیق کردی

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں اضطراب پایا جاتا ہے۔

بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ پر ووٹنگ جنوری تک ملتوی کردی

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں