بریگزٹ معاہدے پر ووٹ سے قبل برطانوی وزیر نے ’پلان بی‘ پیش کردیا

09 دسمبر 2018
ورک اینڈ پشن منسٹر ایمبر رد — فوٹو : اے پی
ورک اینڈ پشن منسٹر ایمبر رد — فوٹو : اے پی

برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی حامی وزیر ایمبر رد نے پارلیمنٹ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے کو مسترد کیے جانے سے قبل ہی اس حوالے سے ’پلان بی‘ پیش کردیا۔

تھریسا مے یورپی یونین سے کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے پر قائم ہیں، جو یورپی یونین سے علیحدگی کا واحد حل تصور کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یورپی یونین سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کیے جانے کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے، جن کے تحت برطانیہ یورپی یونین سے ’کسی معاہدے کے بغیر‘ علیحدہ ہوگا یا پھر بریگزٹ ہی نہیں ہوگا۔

تاہم، برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی کنزرویٹو پارٹی سمیت دیگر پارلیمانی اراکین کی جانب سے مذکورہ معاہدے کو مسترد کیے جانے کے قوی امکانات ہیں جس کے تحت برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے باوجود یونین سے قریبی تعلقات قائم رہیں گے۔

مزید پڑھیں : یورپی یونین کی برطانیہ کے بریگزٹ معاہدے کی توثیق

برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے، اس معاہدے کو مسترد کیے جانے کا اقدام، دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کو غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا کردے گا۔

یورپی یونین سے بریگزٹ کے متعلق کیے گئے معاہدے پر تھریسا مے سے اتفاق کرتے ہوئے برطانوی وزیر برائے ورک اینڈ پنشن ایمبر رد نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

تاہم ایمبر رد کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ یورپی یونین کے ساتھ ناروے کی طرز کے تعلقات قائم کرنے سے حالیہ ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔

انہوں نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا تھا کہ ’اگر برطانوی وزیراعظم کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا تو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے عوام کے ووٹ اور ناروے پلس کے آپشن موجود ہوں گے‘۔

ایمبر رد نے دی ٹائمز اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں بھی اپنے مؤقف کو ترجیح دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اگر برطانوی وزیراعظم کی جانب سے یورپی یونین سے کیا گیا معاہدہ مسترد کردیا گیا تو ’ناروے پلس‘ پر غور کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ناروے پلس کا آپشن صرف ملک کے لیے ہی نہیں بلکہ وزرا کے لیے بھی مناسب ہے‘۔

خیال رہے کہ ناروے یورپی یونین کا رکن ملک نہیں ہے لیکن یونین کی سنگل مارکیٹ میں موجود ہے اور عوام اور سرمائے سمیت دیگر سروسز کی مفت نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے۔

’ناروے پلس‘ کی مدد سے برطانیہ یورپی یونین کی کسٹم یونین کا حصہ رہ سکے گا، ناروے کسٹم یونین کا حصہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے پھر ریفرنڈم کا مطالبہ

مزید برآں یورپی یونین کے حامی قانون سازوں نے یونین کی رکنیت کے حوالے سے دوسرے ریفرنڈم یا ’عوام کے ووٹ‘ کی حمایت کا اظہار بھی کیا ہے۔

دی ٹائمز کے مطابق یہ منصوبہ بھی بنایا جارہا ہے کہ اگر تھریسا مے منگل کو بریگزٹ سے متعلق ووٹنگ میں ناکام ہوگئیں تو انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ووٹنگ کی جائے گی۔

دی ٹیلی گراف نے ایک سینئر کنزرویٹو قانون ساز کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ ’تھریسا مے کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے‘۔

تاہم ، ایمبر رد کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ بریگزٹ کے معاہدے کو مسترد کرتی ہے تو بھی تھریسا مے کو وزیراعظم رہنا چاہیے۔

انہوں نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا تھا کہ ’تھریسا مے کے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے‘۔

اس حوالے سے دی ٹائمز اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ لیبر پارٹی اس وقت باغی کنزرویٹو اراکین اور ڈیموکریٹک یونیونسٹ پارٹی اور نارتھرن آئرش پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے پر غور کررہی ہے جس کا مقصد اقلیتی حکومت کو تھریسا مے کی وزارت سے متعلق عدم اعتماد کا ووٹ دینے پر راضی کرنا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 9 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں