سندھ حکومت کو 6 ہفتوں میں محکمہ پولیس کیلئے نئے قوانین بنانے کا حکم

24 جنوری 2019
افسران کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور یہ سب اجلاس اجلاس کھیلتے ہیں —فائل فوٹو
افسران کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور یہ سب اجلاس اجلاس کھیلتے ہیں —فائل فوٹو

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو 6 ہفتوں میں محکمہ پولیس کے لیے نئے قوانین بنانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے انسپکٹر جنرل(آئی جی) سندھ سید کلیم امام، چیف سیکریٹریز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔

اس دوران درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ڈیڑھ سال گزر گیا ہے توہین عدالت کی درخواست پر جواب نہیں دیا گیا، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے کہا کہ محکمہ پولیس میں نئے قوانین بنا کر کابینہ کو بھیج دیے گئے ہیں، ان نئے قوانین کی منظوری کے لیے ہمیں مزید 6 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے جواب پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 3 مرتبہ پہلے بھی پولیس کے نئے قوانین کابینہ کے ایجنڈے میں رہے مگر ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوسکا، اگر ڈیڑھ سال میں حکومت سے پولیس قوانین نہیں بن رہے تو حکومت کو ہی ختم ہونا چاہیے۔

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی حکومت نے اصلاحات نہیں کیں، نگراں حکومت کے بعد نئی حکومت نے بھی رولز میں اصلاحات پر کام نہیں کیا، اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے خلاف بھی 2 توہین عدالت کی درخواستیں دائر ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کو 6 ہفتوں میں محکمہ پولیس کے لیے نئے قوانین بنانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔

عدم شواہد کی بنیاد پر بند کیے گئے کیسز سے آئی جی سندھ کی لاعلمی پر عدالت برہم

قبل ازیں سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے کراچی سمیت صوبے بھر میں اے کلاس کیے گئے کیسز کے معاملے پر سماعت کی، اس دوران آئی جی سندھ سید کلیم امام اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران آئی جی سندھ کی جانب سے عدم شواہد کی بنیاد پر بند کیے گئے مقدمات سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا، جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ اگر آئی جی سندھ کو ان تمام مقدمات کا علم نہیں تو آئی جی آفس ہی بند کردینا چاہیے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کا رجسٹرار اگر 5 منٹ میں مقدمات کا نہ بتا سکے تو ہم عدالت ہی بند کردیں۔

عدالت کی جانب سے پولیس حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے گئے کہ آپ لوگ کراچی میں بیٹھے ہیں، اگر کراچی کے اضلاع کا ہی ریکارڈ نہ ہو تو یہ حیرانی کی بات ہے، اس پر پولیس حکام کی جانب سے کہا گیا کہ اے کلاس کیے گئے کیسز کا آئی جی آفس سے کوئی تعلق نہیں۔

اس دوران پولیس کی جانب سے کراچی کے 3 اضلاع سمیت سندھ کے 12 اضلاع کے اے کلاس کیے گئے کیسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ کیا گزشتہ 10 برس میں کسی آئی جی نے عدم شواہد کی بنیاد پر بند ہونے والے کیسز کی معلومات نہیں لیں؟ یہ کہاں کی مخلوق ہیں؟ آئی جی پولیس کہاں سے آتے ہیں؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی تو ان کیسز کی رپورٹ دے دے یہ پورا نظام اللہ کے آسرے پر ہی چل رہا ہے، آفیسر خود کوئی کام نہیں کرتے سب کچھ نیچے والے افسران پر چھوڑ رکھا ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے پولیس حکام پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسران کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور یہ سب اجلاس اجلاس کھیلتے ہیں جبکہ تحقیقات کرنے والے افسران کے پاس کوئی سہولت نہیں ہے، ان کے پاس گاڑیاں ہیں نہ ہی آلات ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اندرون سندھ تو کچھ غنیمت ہے مگر کراچی پولیس کا بہت ہی برا حال ہے، اس پر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کورنگی نے مؤقف اپنایا کہ 4 لاکھ کی آبادی پر صرف ایک پولیس تھانہ ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ قتل ہوتے رہیں، ماں، باپ روتے رہیں اور یہاں وسائل کی کمی کے باعث کیس بند کردیا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں