خیبرپختونخوا میں خواتین اساتذہ سے مرد ملازمین کے رابطے پر پابندی

اپ ڈیٹ 01 فروری 2019
کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کے لیے بذریعہ ٹیلیفون، واٹس ایپ یا موبائل پر رابطہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہوگی— فائل فوٹو
کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کے لیے بذریعہ ٹیلیفون، واٹس ایپ یا موبائل پر رابطہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہوگی— فائل فوٹو

پشاور: خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم نے خواتین اساتذہ سے کسی بھی مرد کلرک، افسر یا آفیشلز کی جانب سے رابطہ کرنے پر پابندی عائد کردی۔

کے پی کے محکمہ ایلیمنٹری اور ثانوی تعلیم کی جانب سے اس پابندی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق خواتین اساتذہ سے کسی بھی دفتری امور کے لیے صرف خواتین آفیشلز اور خواتین اسٹاف ممبران ہی رابطہ کر سکتی ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ محکمہ تعلیم کا کوئی بھی مرد افسر، کلرک یا کوئی بھی اسٹاف ممبر خواتین ٹیچر سے براہِ راست رابطہ نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی، پرائمری اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی بھرتیوں میں ناکام

اس کے علاوہ خواتین اساتذہ سے کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کے لیے بذریعہ ٹیلیفون، واٹس ایپ یا موبائل پر رابطہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہوگی۔

نوٹیفکیشن میں خواتین اساتذہ سے رابطہ کرنے کے طریقہ کار کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ خواتین اساتذہ سے کسی بھی قسم کی دفتری امور سے متعلق ضرورت پڑنے کی صورت میں خاتون ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر (ڈی ای او) کے ساتھ رابطہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں نوٹیفکیشن میں کسی بھی مرد اسٹاف ممبر یا آفیشل پر خواتین اسٹاف ممبران کے خلاف تحقیقات کرنے والی کمیٹی یا انکوائری ٹیم کا حصہ بننے پر بھی پابندی ہوگی۔

وزیرِاعلیٰ کے مشیر برائے ایلیمنٹری اور ثانوی تعلیم ضیا اللہ بنگش نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ محکمے نے خواتین اساتذہ کی جانب سے انہیں ہراساں کرنے کی متعدد شکایات موصول ہونے کے بعد یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی معاملے میں خواتین اسٹاف کو ہی خواتین اساتذہ سے رابطہ کرنا چاہیے جس میں انہیں آسانی محسوس ہوگی۔

ضیا اللہ بنگش نے بتایا کہ محکمہ تعلیم نے ہراساں کرنے کی شکایات درج کروانے کے لیے شکایتی سیل بھی بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کی سربراہی ایک خاتون افسر کریں گی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ شکایتی سیل 2 مرد افسران اور 3 خواتین افسران پر مشتمل ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں