مفتی تقی عثمانی پر حملہ: جاں بحق پولیس اہلکار گھر کا واحد کفیل، 3 بچے نابینا

23 مارچ 2019
جاں بحق پولیس اہلکار پنکچر کی دکان پر کام کرتا تھا—فوٹو:کرائم نیوز فیس بک
جاں بحق پولیس اہلکار پنکچر کی دکان پر کام کرتا تھا—فوٹو:کرائم نیوز فیس بک

کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے میں جاں بحق پولیس اہلکار محمد فاروق گھر کا واحد کفیل اور سات بچوں کا باپ تھا جن میں سے 3 بچے پیدائشی طور پر نابینا ہیں جبکہ معذور بچوں نے انصاف کا مطالبہ کردیا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جاں بحق پولیس اہلکار محمد فاروق گھر کا واحد کفیل او 7 بچوں کا باپ تھا اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈیوٹی کے بعد پنکچر کی دکان پرکام کرکے اپنے گھر کے علاوہ بیوہ بہن اور اس کے 6 بچوں کی بھی کفالت کرتا تھا۔

ڈان نیوز کو جاں بحق اہلکار محمد فاروق کے بھائی نے بتایا کہ ‘ان کے سات بچے ہیں، 3 نابینا اور 4 نارمل ہیں’۔

محمد فاروق کی والدہ نے کہا کہ ‘میرا بیٹا گھر کا واحد کفیل تھا، میرا شوہر دل کا مریض ہے اور میری بیوہ بیٹی ہے جس کے 6 بچے ہیں’۔

مزید پڑھیں:کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ، 2محافظ جاں بحق

جاں بحق اہلکار محمد فاروق کی نماز جنازہ ہفتے کی دوپہر گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں ادا کی جائے گی۔

خیال رہے کہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم اور ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے جبکہ ان کے 2 محافظ جاں بحق ہو گئے تھے۔

گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب دو موٹر سائیکلوں پر سوار 4 ملزمان نے دو کاروں پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ان کے 2 محافظ جاں بحق ہوئے تھے جن کی شناخت محمد فاروق اور صنوبر خان کے نام سے ہوئی تھی۔

دارالعلوم کراچی میں عصر کے وقت نمازیوں کو حملے کی تمام روداد بتاتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ 'حملے کے وقت میرے ساتھ میری اہلیہ اور دو پوتا، پوتی موجود تھے، اگلی سیٹ پر پولیس کی جانب سے فراہم کیا گیا محافظ موجود تھا جبکہ ڈرائیور حبیب گاڑی چلا رہا تھا۔'

یہ بھی پڑھیں:ڈرائیور کی مہارت اور بہادری سے جان بچ گئی، مفتی تقی عثمانی

انہوں نے بتایا کہ 'جب ہم راشد منہاس روڈ پر پہنچے تو اچانک ہماری گاڑی پر تین طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی جس سے ڈرائیور کو دائیں کندھے پر گولی لگی جبکہ محافظ کو سر پر گولی لگی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں، اہلیہ اور بچے محفوظ رہے اور ہمیں گاڑی کے شیشوں کے ٹکڑے لگنے کی وجہ سے چند زخم آئے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'حملہ آوروں کا مقصد شاید پورا نہیں ہوا تھا اس لیے وہ فائرنگ کے بعد دوبارہ پلٹے اور پھر چاروں طرف سے گولیاں برسائیں جس سے محافظ کو مزید گولیاں لگیں اور وہ شہید ہوگیا جبکہ ڈرائیور نے زخمی ہونے کے باوجود انتہائی مہارت اور جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے گاڑی کو آگے بڑھایا۔'

مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ 'گولی لگنے کی وجہ سے ڈرائیور تکلیف میں تھا اس لیے میں نے اس سے کہا کہ میں گاڑی چلا کر ہسپتال لے چلتا ہوں لیکن اس نے تیسری بار حملے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجھے گاڑی چلانے سے روکا اور تیزی سے خود گاڑی چلا کر لیاقت ہسپتال پہنچا۔'

انہوں نے کہا کہ 'ہسپتال میں ڈاکٹروں نے محافظ کو مردہ قرار دیا جبکہ زخمی ڈرائیور کی حالت کو خطرے سے باہر بتایا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پیچھے دوسری گاڑی میں بھی صنوبر نامی دارالعلوم کے محافظ کو بھی گولیاں لگیں جس سے وہ شہید ہوگیا جبکہ ڈرائیور عامر کی حالت تشویشناک ہے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں