نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کل ہوگی،سیکیورٹی انتظامات مکمل

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2019
وکلا اور صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ہو گی — اے ایف پی/فائل فوٹو
وکلا اور صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ہو گی — اے ایف پی/فائل فوٹو

سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کل (26 مارچ کو) ہوگی جس کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کرلیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کرے گا۔

نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں ہوگی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیں گے، چیف جسٹس

کمرہ عدالت نمبر ایک میں محدود نشستوں کے باعث سپرنٹنڈنٹ پولیس کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی پاس جاری کیے جائیں گے۔

اعلامیے کے مطابق کمرہ عدالت میں صرف وکلا، درخواست گزار اور فریقین کو جانے دیا جائے گا جبکہ وکلا اور صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ہو گی۔

سپریم کورٹ کے مطابق عدالتی کارروائی دیکھنے کے خواہشمند شہری ایس پی سیکیورٹی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخلے سے قبل تمام افراد کے بیگز اور پرسز کی تلاشی لی جائے گی جبکہ موبائل فونز لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

خیال رہے کہ 19 مارچ کو سپریم کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطل کرکے ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تھی، اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلہ

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 فروری کو نواز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

اس کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ جب بھی انہیں صحت کی خرابی کی شکایت ہوئی تو انہیں وقتاً فوقتاً علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ درخواست گزار کو وہ تمام بہترین ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جہاں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ انہیں لاہور کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: نواز شریف کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

وزیراعظم عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی اجازت دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ میں یہ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ہی ایک علیحدہ درخواست بھی جمع کروائی گئی تھی جس میں اس کی 6 مارچ کو جلد سماعت کی گزارش تھی۔

تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جلد سماعت کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ نہیں دی جاسکتی اور کارروائی معمول کے مطابق ہی کی جائے گی۔

عدالت عظمیٰ سے جلد سماعت کی درخواست واپس ہونے کے بعد 11 مارچ کو سابق وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف ضمانت کی درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کی صحت پہلے سے زیادہ خراب ہے، لہٰذا عدالت رواں ہفتے ہی درخواست کی سماعت مقرر کرے جسے عدالت نے 19 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

العزیزیہ ریفرنس

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

مزید پڑھیں: 'اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو عمران خان، ان کی حکومت ذمہ دار ہو گی'

عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں