آسیہ بی بی کی کینیڈا منتقلی کی تصدیق

اپ ڈیٹ 08 مئ 2019
آسیہ بی بی کو قید سے رہائی پر اسلام آباد کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز
آسیہ بی بی کو قید سے رہائی پر اسلام آباد کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز

سپریم کورٹ سے توہینِ مذہب کے مقدمے میں بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔

دفتر خارجہ کے ذرائع نے ڈان نیوز ٹی وی کو بتایا کہ ’آسیہ بی بی ملک سے جاچکی ہیں، وہ آزاد ہیں اور اپنی مرضی سے وہ اس سفر پر گئیں‘۔

تاہم ذرائع نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ آسیہ بی بی کس ملک گئی ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل سیف الملوک نے تصدیق کی کہ وہ کینیڈا پہنچ گئی ہیں۔

یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو 9 سال قید میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو توہینِ مذہب کے مقدمے میں بری کیا تھا، جس پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاج بھی دیکھنے میں آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آسیہ بی بی کی بریت، فیصلے کے 7 اہم ترین نکات

مذکورہ فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو 7 نومبر 2018 کو ملتان کی خواتین جیل سے رہائی کے بعد خصوصی طیارے کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں اسلام آباد میں کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک حکام سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی موجودگی پر کچھ بھی بتانے سے گریزاں رہے، البتہ چند روز قبل برطانوی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ آسیہ بی بی پاکستان میں ہیں۔

قبل ازیں آسیہ بی بی کے بھائی جیمز مسیح نے کہا تھا کہ 'آسیہ پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں، ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں کہ وہ جلد ہی ملک چھوڑ دیں‘۔

بعد ازاں آسیہ بی بی کی بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف توہین مذہب کیس کے مدعی قاری عبدالسلام نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا تھا۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا، جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں مبینہ طور جھگڑا ہوا۔

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

مزید پڑھیں: آسیہ بی بی کو پاکستان چھوڑنے میں مدد کریں گے، اٹلی

جس کے بعد آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کر رہے تھے جبکہ ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جس کے بعد بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف مختلف عدالتوں میں متعدد اپیلیں کی گئیں، جو مسترد ہوگئیں جبکہ اکتوبر 2016 میں سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزا برقرار رکھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:آسیہ بی بی آزاد ہیں، جہاں جانا چاہیں جاسکتی ہیں، وزیر اطلاعات

جس کے بعد 5 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہوئی اور 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں توہینِ مذہب کیس سے بری کردیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلے میں کہا تھا کہ ’ مدعی کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں پیش کردہ ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ استغاثہ شک و شبہ سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں یکسر ناکام رہا‘۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) نے تمام بڑے شہروں کی سڑکیں بلاک کر کے 3 دن تک احتجاج کیا تھا اور اس دوران عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کی اہم شخصیات کے لیے انتہائی سخت اور نامناسب الفاظ کا استعمال بھی سامنے آیا تھا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں