آسیہ بی بی کی بریت، فیصلے کے 7 اہم ترین نکات

01 نومبر 2018
آسیہ بی بی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ — فوٹو، فائل
آسیہ بی بی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ — فوٹو، فائل

سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے آسیہ بی بی کی بریت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی فوری رہائی کا حکم جاری کیا جو گزشتہ 9 سال سے قید تھیں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں اسلامی تعلیمات اور روایات کا حوالہ دیا گیا ہے، تاہم اس میں بالآخر حقائق اور ثبوت کی تشخیص پر انحصار کیا گیا جس کی بنیاد پر گزشتہ فیصلوں کو معطل کیا گیا۔

ذیل میں ان 7 اہم نکات کو بیان کیا جارہا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہیں۔

1- 25 خواتین، لیکن صرف 2 ہی گواہ

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’جس وقت آسیہ بی بی نے مبینہ طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اس وقت 25 سے 30 خواتین بھی موجود تھیں، لیکن معافیہ بی بی (گواہ استغاثہ نمبر 2) اور اسما بی بی (گواہ استغاثہ نمبر 3) کے علاوہ کسی (خاتون) نے اس کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کیا، اور عدالتی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مذکورہ خواتین استغاثہ کے کیس میں مدد دینے کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہوئیں‘۔

2- واقعے کی ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر پر شبہات

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس بات کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ اس واقعے کی ایف آئی آر 5 دن کی تاخیر سے درج کروائی گئی، یہاں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عدالت نے بلا کسی جواز کے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کو مہلک سمجھا ہے جو استغاثہ کی کہانی میں شک کا موجب ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے ملزم کو شک کا فائدہ پہنچتا ہے اور تحقیقات کے بعد ایف آئی آر کے اندراج سے شواہد کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے جس کا فائدہ ملزم کے سوا کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا‘۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ’اس مقدمے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ درخواست گزار (گواہ استغاثہ نمبر 1) نے اپنے بیان میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے دی جانے والی درخواست ایک وکیل نے لکھی تھی، تاہم وہ اپنا نام ظاہر نہ کرسکا، جس کی وجہ سے ایف آئی آر میں موجود کہانی کی سچائی پر شبہات ہیں‘۔

3- گواہان کے متضاد بیانات

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مذکورہ کیس میں گواہاں کے متضاد بیانات کے بارے میں بتایا۔

معافیہ بی بی
  • عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’معافیہ بی بی نے عدالت میں جرح کے دوران بتایا کہ جب آسیہ بی بی نے اپنے جرم کا اقبال کیا اس وقت اجتماع میں ایک ہزار سے زائد لوگ موجود تھے، تاہم اس نے اپنے ابتدائی بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا‘۔

  • جرح کے دوران معافیہ بی بی نے بیان دیا تھا کہ آسیہ بی بی کے اقبال جرم کے لیے ہونے والا اجتماع ان کے گھر پر منعقد ہوا تھا، تاہم یہ بات ان کے ابتدائی بیان میں موجود نہیں تھی۔

  • معافیہ بی بی نے جرح کے دوران بیان دیا تھا کہ اجتماع کے دوران کئی علما موجود تھے، تاہم انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں یہ وضاحت نہیں کی تھی۔

اسما بی بی
  • اسما بی بی نے جرح کے دوران بیان دیا تھا کہ اجتماع ان کے پڑوسی رانا رزاق کے گھر پر ہوا تھا، تاہم انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں یہ بات نہیں کی تھی جبکہ عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ معافیہ بی بی نے بیان دیا تھا کہ یہ اجتماع ان کے گھر پر منعقد ہوا تھا۔

  • جرح کے دوران اسما بی بی نے بتایا تھا کہ اجتماع کے وقت 2 ہزار سے زائد لوگ وہاں موجود تھے، تاہم انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا جبکہ عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ گواہ معافیہ بی بی نے بیان دیا تھا کہ اجتماع کے وقت ایک ہزار کے قریب لوگ موجود تھے۔

محمد افضل
  • جرح کے دوران محمد افضل نے بیان دیا تھا کہ وہ اس وقت اپنے گھر پر موجود تھے جب معافیہ بی بی اور اسما بی بی شکایت کنندہ قاری محمد سلام اور مختار احمد کے ساتھ ان کے گھر پر واقعے کی اطلاع دینے کے لیے آئے، تاہم انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔

  • محمد افضل نے جرح کے دوران بیان دیا تھا کہ آسیہ بی بی کے اقبال جرم کے لیے اجتماع مختار احمد کے گھر پر منعقد ہوا تھا جس کے بارے میں اس نے اپنے ابتدائی بیان میں نہیں بتایا تھا، لیکن یہاں عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ان کا بیان معافیہ بی بی اور اسما بی بی دونوں ہی سے متصادم ہے۔

قاری محمد سلام
  • قاری محمد سلام نے پہلے کہا کہ معافیہ بی بی، اسما بی بی اور کیس کے تیسرے گواہ نے آسیہ بی بی کی جانب سے کی جانے والی مبینہ گستاخی کے بارے میں آگاہ کیا، تاہم پھر بعد میں کہا کہ گواہان نے صرف انہیں، محمد افضل اور محمد مختار کو اس بارے میں آگاہ کیا جو اس وقت موجود تھے، یہاں عدالت کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کا یہ بیان محمد افضل کے بیان سے متصادم ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ قاری محمد سلام، مختار احمد، اسماء بی بی اور معافیہ بی بی نے انہیں ان کے گھر آکر اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

  • جرح کے دوران قاری محمد سلام نے بیان دیا تھا کہ آسیہ بی بی کے اقبال جرم کے لیے اجتماع مختار احمد کے گھر پر ہوا تھا، تاہم انہوں نے اس کا تذکرہ اپنے پہلے بیان میں نہیں کیا تھا، لہٰذا عدالت کے علم میں یہ بات آئی کہ یہ بیان خواتین کی جانب سے دیے جانے والے بیان سے متصادم ہے۔

4- شکایت کنندہ تاریخ واقعہ کے بارے میں غیر یقینی کیفیت کا شکار

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’استغاثہ کے گواہان اور شکایت کنندہ کے درمیان تنازع بھی سامنے آیا جو واقعہ کی تاریخ کا ہے، جس میں گواہان کے مطابق یہ واقعہ 14 جون 2009 کو رونما ہوا اور اسی دن شکایت کنندہ کو اس کے بارے میں آگاہ کردیا گیا تھا، لیکن شکایت کنندہ نے جرح کے دوران بتایا تھا کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں 16 جون 2009 کو بتایا گیا۔

5- ایف آئی آر اور گرفتاری میں تضاد

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’ایف آئی آر کے اختتام پر لکھا تھا کہ یہ ایف آئی آر سب انسپکٹر مہدی حسن نے چندرکوٹ میں 5 بج کر 45 منٹ پر رجسٹرڈ کی، تاہم شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ اس کی شکایت پر ایف آئی آر متعلقہ ایس ایچ او نے درج کی، تاہم سب انسپکٹر محمد رضوان کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ نے انہیں درخواست دی تھی جس کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی‘۔

’ملزمہ کی گرفتاری سے متعلق سب انسپکٹر محمد کے بیان سے مزید تنازعات جنم لے رہے ہیں، جس میں انہوں نے اپنی جرح میں بیان دیا تھا کہ انہوں نے 2 لیڈی کانسٹیبل کی مدد سے ملزمہ کو گرفتار کرکے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور پھر جوڈیشل لاک اپ میں ڈال دیا تھا‘۔

’سب انسپکٹر نے جرح کے دوران بیان دیا تھا کہ انہوں نے ملزمہ کو 19 جون 2009 کو گاؤں ایٹاں والی میں ان کے گھر سے 4 یا 5 بجے کے وقت گرفتار کیا تھا، تاہم ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی بیان دیا کہ وہ گاؤں ایٹاں والی میں شام 7 بجے پہنچے جہاں وہ ایک گھنٹے تک رہے‘۔

6- آسیہ بی بی سے لڑائی کے بارے میں غلط بیانی

فیصلے کے مطابق ’عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ معافیہ بی بی اور اسما بی بی جو بہنیں ہونے کے ساتھ ساتھ اس واقعے کی اہم ترین گواہ بھی ہیں، دونوں نے ہی پانی لانے کے معاملے میں آسیہ بی بی سے لڑائی کی تردید کی‘۔

عدالت کے مشاہدے میں یہ بھی بات آئی ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر اور اس کھیت کے مالک جہاں یہ واقعہ رونما ہوا تھا، نے بیان دیا تھا کہ آسیہ بی بی کی معافیہ اور ان کی بہن سے لڑائی ہوئی تھی جو ریکارڈ سے ثابت ہے‘۔

’استغاثہ نے پولیس افسر کو منحرف گواہ قرار نہیں دیا اور حالات کے مطابق استغاثہ کے گواہان کو صادق گواہ نہیں کہا جاسکتا، اور ایسے چشم دید گواہان (معافیہ بی بی اور اسما بی بی) کے اپنے ہی بیانات میں تضاد موجود ہے جس کی وجہ سے ملزمہ کو پھانسی نہیں دی جاسکتی‘۔

7- ماورائے عدالت اعترافی بیان

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ ابتدائی سماعت میں فاضل عدالت نے سزا یاب اپیل گزار کے ماورائے عدالت اعتراف جرم سے متعلق گواہان کی شہادت پر انحصار کیا تھا، لیکن فاضل عدالت عالیہ نے ماورائے عدالت اقبال جرم پر اس لیے غور نہیں کیا کیونکہ اس سے متعلق جو شہادتیں قاری محمد سلام، محمد افضل اور محمد ادریس نے دیں انہیں ماورائے عدالت اقبالِ جرم متصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں کسی خاص وقت تاریخ یا جرم کے ارتکاب کا طریقہ کار موجود نہیں ہے، اور نہ ہی ان کے بیان میں ایسے حالات کا تذکرہ ہے جن میں یہ ثابت ہو کہ آسیہ بی بی نے مبینہ جرم کا ارتکاب کیا ہے‘۔

’اس ضمن میں عدالت ہمیشہ ماورائے عدالت اقبالِ جرم کو ضعیف شہادت قرار دیتی ہے، اسے آسانی سے گھڑا جاسکتا ہے اس لیے عدالت ہذا اسے ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے، عمومی طور پر قدرتی حالات و واقعات، انسانی رویوں، طرزِ عمل اور ممکنات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماروائے عدالت اقبالِ جرم کی قانونی اہمیت قدرے ناقص ہوتی ہے‘۔

’مذکورہ مقدمے میں آسیہ بی بی کو سیکڑوں لوگوں کے مجمع میں اکیلے لایا گیا اور ان کے لیے یہ ماحول خطرناک تھا اور انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق تھا، ملزمہ نے اپنے آپ کو غیر محفوظ اور خوفزدہ پایا اور دباؤ میں آتے ہوئے ماورائے عدالت بیان دیا اسے بطورِ خاص سزائے موت کی بنیاد نہیں کہا جاسکتا‘۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی اردو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

تبصرے (0) بند ہیں