سپریم کورٹ: آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی اپیل سماعت کیلئے مقرر

24 جنوری 2019
سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی بی کو توہین مذہب کیس میں بری کردیا تھا — فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی بی کو توہین مذہب کیس میں بری کردیا تھا — فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف دائر نظرثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر کردی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 29 جنوری کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف توہین مذہب کیس کے مدعی قاری عبدالسلام نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے اپیل دائر

31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرنے اور ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں لکھا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی کسی کو اجازت نہیں ہے لیکن جب تک کوئی گناہ گار ثابت نہ ہو سکے تو بلا امتیاز معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں آسیہ بی بی کو 9 سال بعد ملتان جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس کا سامنا کرنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

مزید پڑھیں: 'ریاست کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کریں'

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sabih Mohsin Saleem Jan 24, 2019 01:38pm
What about the judge who ordered her to be hanged, shouldnot he be also called to explain on what grounds he made his judgement.