'عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانی قیدیوں کے ساتھ اٹھانے سے شاید کچھ ہوجائے'

اپ ڈیٹ 20 مئ 2019
سپریم کورٹ کا عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا مقدمہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے کیس سے منسلک کرنے کا حکم — فائل فوٹو/ ڈان نیوز
سپریم کورٹ کا عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا مقدمہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے کیس سے منسلک کرنے کا حکم — فائل فوٹو/ ڈان نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا مقدمہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے کیس سے منسلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ دیگر پاکستانی قیدیوں کے ساتھ اٹھانے سے شاید کچھ ہوجائے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی سے متعلق ان کی بہن فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہر 3 ماہ بعد قونصلر ملاقات ہوتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لیں، کیا عافیہ صدیقی کی سزا پاکستان میں پوری ہو سکتی ہے؟

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد نکلیں

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی دیگر پاکستانی قیدیوں کے ساتھ اٹھانے سے شاید کچھ ہو جائے۔

بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واطن واپسی کا مقدمہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کے کیس سے منسلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل 8 مئی 2019 کو ایوان بالا (سینیٹ) میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کا معاملہ امریکی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا تھا کہ امریکا میں قونصل جنرل سے ملاقات کے بعد وہاں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی رہائی کے لیے اپیل دائر کرنے پر آمادہ ہوگئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی تک قیدیوں کی امریکا منتقلی روک دے‘

ان کا کہنا تھا کہ ہوسٹن میں قونصل جنرل نے 18 اپریل 2019 کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے آخری ملاقات کی، اس ملاقات میں عافیہ صدیقی نے رہائی کے لیے اپیل دائر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

تحریری جواب میں بتایا گیا کہ امریکی عدالتی نظام کے مطابق اپیل دائر کرنے کا فیصلہ صرف عافیہ صدیقی ہی کرسکتی ہیں۔

اس سے قبل اپریل میں وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ امریکا میں زیر حراست ڈاکٹر عافیہ صدیقی ’پاکستان نہیں آنا چاہتیں‘ اور ان کی واپسی سے متعلق رپورٹس ’محض افواہیں‘ ہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کو وزیراعظم عمران خان اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے مشروط قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن نہیں‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے رہنما ملاقات کریں تو ممکن ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی واپسی ہو سکے‘ اور واضح کیا تھا کہ ’شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کا تبادلہ زیربحث آسکتا ہے‘۔

دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ نے دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر کوئی کہتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ خود واپس پاکستان نہیں آنا چاہتیں تو یہ بیان قطعی سچ پر مبنی نہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں