سوات میں ڈیڑھ سال کے دوران ٹریفک حادثات میں 100 سے زائد افراد جاں بحق

15 جولائ 2019
ایک سال کے دوران سوات میں 527 سڑک حادثات ہوئے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایک سال کے دوران سوات میں 527 سڑک حادثات ہوئے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

منگورہ: گزشتہ 18 ماہ کے دوران سڑک حادثات میں کم از کم 119 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے، جن میں سے زیادہ تر موٹرسائیکل سے جڑے حادثات تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سڑک حادثات کی بڑی تعداد کی وجہ سے مالاکنڈ ڈویژن کی انتظامیہ نے نوجوان موٹرسائیکل سواروں کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ فیصلہ کمشنر ریاض خان محسود کی سربراہی میں ایک اجلاس میں کیا گیا، جس میں ضلع کے پولیس افسر، اسسٹنٹ کمشنرز، سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، ٹریفک مجسٹریٹ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر، گاڑیوں کا معائنہ کرنے والے اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: پشاور-اسلام آباد موٹروے پر حادثہ: 11 افراد جاں بحق، 46 زخمی

ڈی پی اور سید اشفر انور اور آر ٹی اے سیکریٹری حامد علی کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ٹریفک حادثات لنداکے سے منگورہ اور چکدرہ سے منگورہ سے جاری ہائی وے پر گنجان آباد علاقوں اور بازاروں کے قریب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران سوات میں 527 سڑک حادثات ہوئے جس میں سے 366 حادثات دسمبر تک ہوئے جبکہ باقی 161 حادثات گزشتہ 6 ماہ میں دیکھنے میں آئے، ان حادثات میں 795 افراد زخمی ہوئے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ سوات میں موٹرسائیکلز میں بڑی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ ڈیلرز کی جگہ سے آسان اقساط پر فراہمی ہے۔

دوران اجلاس ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے زیادہ تر موٹرسائیکلز غیررجسٹرڈ ہیں اور نوجوانوں کے پاس انہیں استعمال کا لائسنس بھی نہیں اور یہ حفاظتی اقدامات نہیں اپناتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ہر پانچ منٹ میں ایک شخص روڈ حادثے کا شکار

اس موقع پر کمشنر ریاض خان محسود نے بڑھتے ٹریفک حادثات پر تحفظات کا اظہار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ یہ حادثات علاقے میں سیاحتی صنعت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سڑکوں کی بحالی کے بعد غیررجسٹرڈ گاڑیاں ضبط کی جائیں گی کیونکہ یہ حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ موٹرسائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کا استعمال لازمی ہے اور پیٹرول پمپ پر بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سوار کو پیٹرول نہیں دیا جائے گا جبکہ ان کی نگرانی کے لیے پولیس، لیویز اور انٹیلی جنس حکام تعینات کیے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں