اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر 60 اراکین کی حمایت کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2019
اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی—اسکرین شاٹ
اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی—اسکرین شاٹ

اسلام آباد: ایوان بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کے لکھے گئے خط کا جواب جمع کروادیا، ساتھ ہی صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر 60 سینیٹرز کی حمایت کا دعویٰ بھی کردیا۔

وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اپوزیشن کے رہنماؤں سینیٹر شیری رحمٰن، سینیٹر حاصل بزنجو، مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر نے گفتگو کی۔

اس موقع پر نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ اور اپوزیشن کے متفقہ چیئرمین سینیٹ کے نامزد کردہ امیدوار سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ہم نے 4 دن پہلے جب تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو 3 دن تک اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ یہ منظور ہوا ہے یا نہیں، جب پارلیمانی لیڈرز نے اس بارے میں پوچھا تو 4 دن بعد غلطیوں کا بتایا گیا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ آئندہ ہفتے ہوگی

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس کا جائزہ لیا گیا اور اس کا جواب سینیٹ سیکریٹ میں جمع کروا دیا گیا۔

سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہمارے اجلاس میں 55 سینیٹرز شریک تھے جبکہ پیر کو ہونے والے اجلاس میں ہمیں امید ہے کہ 60 یا اس سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہوگئی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ملتوی کیا جاتا یا اس کے لیے کوئی حربہ استعمال کیا جاتا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ سینیٹ کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں ووٹنگ کروائی جائے جس سے ثابت ہوسکے کہ اکثریت کس کی ہے۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کرکے اپوزیشن سینیٹرز پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور ہوسکتا ہے مزید گرفتاریاں بھی ہوں لیکن اپوزیشن کسی بھی دباؤ سے نہ جھکے گی نہ پیچھے ہٹے گی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہوگئے ہیں، 55 اراکین ہمارے اجلاس میں آئے تھے، جن سب نے دستخط کیے ہیں۔

علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خط کے جواب میں لکھا گیا کہ آئین چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اجازت دیتا ہے، اگر یہ قرارداد منظور ہو جائے تو چیئرمین سینیٹ کو آفس خالی کرنا ہوگا۔

اپوزیشن نے اپنے جواب میں کہا کہ آئین میں کوئی شق نہیں کہ قرارداد عدم اعتماد صدر کے بلائے گئے اجلاس میں منظور کی جائے، چیئرمین سینیٹ کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس بھی معمول کی مطابق ہو گا۔

اپنے جواب میں اپوزیشن نے کہا کہ ریکوزیشن کا ایجنڈا ترجیح ہوگا، آئین ریکوزیشن کیےگئے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔

خط کے جواب میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین کی رولنگ پر اعتراض بے بنیاد ہے، یہ رولنگ ایجنڈا اور آرڈر آف دی ڈے سے متعلق ہے، لہٰذا آئین کے مطابق تحریک نمٹانے تک اجلاس ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

اپوزیشن کے مطابق تحریک عدم اعتماد دیگر قرارداد اور تحاریک پر فوقیت رکھتی ہے اور نوٹس جاری ہونے کے بعد سینیٹ کا اجلاس 7 روز سے زیادہ ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: کسی صورت استعفیٰ نہیں دوں گا، چیئرمین سینیٹ

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے 9 جولائی کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف جبکہ حکومتی اراکین نے 12 جولائی کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ حاصل بزنجو کو نیا چیئرمین سینیٹ نامزد کیا تھا۔

ایک جانب جہاں حزب اختلاف کی جماعتیں واضح برتری کے سبب چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے پراعتماد ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف اس تحریک کو ناکام بنانے کا عزم رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں درج سینیٹ اصول و ضوابط کے رول نمبر 12 کے مطابق چیئرمین سینیٹ یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک پیش کرنے کی اجازت کے حصول کے سلسلے میں ایوان بالا کے ایک چوتھائی اراکین سیکریٹری کو نوٹس جمع کرواسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں