آرٹیکل 370 کی منسوخی پر بھارت کو قانونی مشکلات ہو سکتی ہیں، وکلا

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
بھارتی صدر نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بل پر دستخط کیے—فوٹو:رائٹرز
بھارتی صدر نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بل پر دستخط کیے—فوٹو:رائٹرز

بھارت کے قانونی ماہرین اور سپریم کورٹ کے وکلا کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ اس معاملے پر آئینی درخواست پر کام کررہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارتی وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی حیثیت ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس کی قانونی حیثیت پر عدالت میں سوال کیا جاسکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد ماہرین قانون نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی حکومت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت انتظامی معاملات چلائے جارہے ہیں جبکہ ریاستی اسمبلی کو توڑ دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل اخیل سبال کا کہنا تھا کہ ‘اگر صدارتی حکم نامہ جاری ہوا تھا تو اب وہ نافذالعمل ہے، کیا وہ تمام معاملات کا احاطہ کر رہا ہے اور یہ ایک قانونی مسئلہ ہوسکتا ہے’۔

ماہر قانون مالا ویکا پراساد کا کہنا تھا کہ ‘تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر ریاست میں ایک سال سے صدارتی حکم نامہ نافذ ہے’۔

بھارتی وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر کئی آئینی درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں اور نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ آئینی درخواست کے حوالے سے پہلے ہی کام کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی خصوصی حیثیت کے معاملے پر درخواست سن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی، مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی اقدام پر احتجاج

حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے معاملے پر بھی قانونی پیچیدگی پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ بی جے پی حکومت نے لداخ کی حیثیت کو دیگر کشمیر سے الگ رکھا ہے۔

بی جے پی اور وزیراعظم مودی کے اس فیصلے کو مسلم اکثریتی جموں اور کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں جہاں دہائیوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بھارتی ایوان بالا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر رام ناتھ کووند پہلے ہی اس بل پر دستخط کرچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں