مقبوضہ کشمیر کی غیریقینی صورتحال، کریک ڈاون کے دوران 6 افراد زخمی

اپ ڈیٹ 07 اگست 2019
مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت نے غیر معیننہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے — رائٹرز/فائل فوٹو
مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت نے غیر معیننہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے — رائٹرز/فائل فوٹو

نئی دہلی: مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے اقدام کے خلاف احتجاج اور مقبوضہ وادی میں فوجی کریک ڈاؤن کے باعث اب تک کم از کم 6 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سری نگر کے ہسپتال کے ایک ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال میں اب تک گولی لگنے سے زخمی ہونے والے 6 افراد کو لایا گیا۔

دو روز قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کی حکومت کے کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے اعلان کے بعد سے ہمالیائی خطے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہے۔

مزید پڑھیں: کشمیر میں خوف اور بے یقینی کی فضا برقرار

مقبوضہ وادی میں عوامی اجتماعات اور ریلیوں پر بھی پابندی عائد ہے جبکہ جموں و کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

سری نگر سے نئی دہلی آنے والے چند مسافروں نے خطے میں صورتحال کو نہایت تشویش ناک قرار دیا۔

ایک مسافر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وادی میں 'پیر کے روز سے وقفے وقفے سے گولیاں اور دیگر اسلحہ چلنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور حکومت نے ہر 5 قدم پر فوجی کھڑے کردیے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایئر پورٹ آتے وقت میری گاڑی کی کم از کم 25 مرتبہ تلاشی لی گئی اور مجھے 30 منٹ کے سفر کو طے کرنے میں 4 گھنٹے لگے'۔

سری نگر سے آنے والے ایک اور مسافر مبین مسعودی کا کہنا تھا کہ اتوار کی رات کو وہ ایک شادی میں تھے کہ انہیں معلوم ہوا کہ موبائل فون سروس بند کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا بل لوک سبھا سے منظور

ان کا کہنا تھا کہ 'آدھی رات کے وقت جب ہم کھانا کھارہے تھے تب ہی فون سروس بند کی گئی اور اس ہی وقت ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے اور ہم سب فوراً گھر کی جانب بھاگے'۔

کشمیری شاعرہ ثنا وانی نے بھی پرواز میں بیٹھنے سے قبل سری نگر میں اپنی آنکھوں دیکھا خوف و ہراس کا ماحول بیان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں ایمبولینسز کو بھی سیکیورٹی چیک پوائنٹ سے گزرنے نہیں دیا جارہا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزین ادارے کے ترجمان روپرٹ کول ول کا کہنا تھا کہ وادی میں مواصلاتی نظام کا بند ہونا اور سیکیورٹی سخت کیا جانا نہایت تشویش ناک ہے۔

جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'مواصلاتی نظام کی بندش بلکہ ایسی بندش، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور پر امن اجتماع پر بھی پابندی، ہم تمام معاملات کو بغور دیکھ رہے ہیں'۔

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے بھارتی حکمرانوں کے خلاف بغاوت جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں