مقبوضہ کشمیر سے غیرمقامی مزدوروں کی واپسی، لداخ سے متعلق بھارتی فیصلے پر احتجاج

اپ ڈیٹ 08 اگست 2019
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چوتھے روز میں داخل ہوگیا — فوٹو: رائٹرز
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چوتھے روز میں داخل ہوگیا — فوٹو: رائٹرز

بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو چوتھے روز میں داخل ہوگیا جس کے باعث وادی میں موجود ہزاروں غیر مقامی غریب مزدور بھارت کی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں اپنے علاقوں میں واپس جانے پر مجبور ہوگئے۔

ڈان ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں موجود غریب مزدروں نے شکایت کی کہ وادی میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سفر کی سخت پابندیوں کے باعث ان کے مالکان نے تنخواہیں دینے سے انکار کردیا ہے اور انہیں نوکری چھوڑ کر چلے جانے کے لیے کہا گیا ہے۔

مذکورہ غیر مقامی مزدوروں کی بڑی تعداد بدھ کے روز جموں کے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوئی، جہاں وہ اتر پردیش، بہار اور جھارکھنڈ جانے والی ٹرینوں کا انتظار کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 6 مظاہرین شہید، 100 زخمی

جگ دیش نامی ایک مزدور کا کہنا تھا کہ سری نگر سے جموں، جس کے درمیان فاصلہ 160 میل کا ہے، تک سیکیورٹی فورسز کے ٹرکوں اور بسز کی موجودگی کے باعث سیکڑوں لوگوں کو کئی کئی میل تک پیدل سفر کرنا پڑا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘ہم نے گزشتہ 4 روز سے مناسب کھانا بھی نہیں کھایا’، ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اپنے آبائی علاقے مشرقی بہار کی ریاست میں جانے کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خریدنے کے پیسے بھی موجود نہیں ہیں۔

ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت ان کی مدد کرے۔

ایک اور مزدور سرجیت سنگھ نے بتایا کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں جاری سیکیورٹی بندش کی وجہ سے واپس جانا پڑ رہا ہے۔

خیال رہے کہ ہر سال ہزاروں افراد روزگار کی تلاش میں بھارت کی مختلف ریاستوں سے مقبوضہ کشمیر کے لیے سفر کرتے ہیں، ان میں مزدور، کارپینٹر اور زراعت سے وابستہ مزدور شامل ہیں۔

لیکن اس وقت انہیں وادی کی سیکیورٹی صورت حال کی وجہ سے واپس جانا پڑ رہا ہے۔

کارگل میں بھارتی فیصلے پر احتجاج

دوسری جانب بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے لداخ سے علیحدہ کرنے کے فیصلے کے خلاف کارگل میں بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

ایک جانب لداخ، جہاں ہندو آبادی کی اکثریت موجود ہے، کے رہنما کی جانب سے بھارت کے فیصلے کو سراہا گیا ہے تو دوسری جانب یہاں کے اہم علاقے کارگل، جہاں کی مسلم اکثریت موجود ہے، میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

یاد رہے کہ پہاڑی سلسلے پر قائم مقبوضہ کشمیر 3 حصوں پر مشتمل ہے، جن میں ہندو اور مسلم اکثریت والے علاقے جبکہ دیگر علاقہ بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔

خیال رہے کہ بھارت نے مظاہروں کو روکنے کے لیے مقبوضہ وادی میں ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، ٹیلی فون سمیت پورا مواصلاتی نظام معطل کر رکھا ہے جس سے پوری کشمیری آبادی کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

یاد رہے کہ 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں یعنی یونین ٹیرٹریز میں تقسیم کردیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔

آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں