پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا مہم پر 31 فیس بک پیجز بلاک

اپ ڈیٹ 28 اگست 2019
سب سے زیادہ کیسز خیبرپختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 44 ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
سب سے زیادہ کیسز خیبرپختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 44 ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سوشل میڈیا پر انسداد پولیو ویکسین کے خلاف متعدد مہمات شروع ہونے کے بعد فیس بک نے حکومتی پولیو پروگرام کی درخواست پر پروپیگنڈا کرنے والے 31 فیس بک اکاؤنٹس اور پیجز بلاک کر دیے۔

پیر کے روز سوشل میڈیا پر یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ صوابی میں پولیو ویکسین کے باعث ایک سالہ بچی ہلاک ہوگئی۔

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو مہم بابر بن عطا نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ افواہ منظر عام پر آنے کے بعد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچی کا پوسٹ مارٹم ہونے کا انتظار کیا۔

تاہم سوشل میڈیا پر ایک منظم اور گمراہ کن مہم کا آغاز کردیا گیا جس میں لوگوں کو کہا گیا کہ بچی کی موت پولیو ویکسین کے سبب ہوئی، لہٰذا اپنے بچوں کو پولیو ویکسین نہیں پلائیں۔

یہ بھی پڑھیں: والدین پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں، بابر بن عطا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بچی کی موت گلے میں مونگ پھلی کا دانہ پھنسنے کے باعث دم گھٹنے کے سبب ہوئی، جس کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہم نے فیس بک سے رابطہ کیا اور باضابطہ طور پر ان اکاؤنٹس کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا جو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈے میں شامل تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ایک گھنٹے کے اندر فیس بک نے وہ تمام اکاؤنٹس اور پیجز بلاک کردیے جو اس گمراہ کن مہم میں شامل تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم تعاون کرنے پر فیس بک کے شکر گزار ہیں، اس کے ساتھ ہم نے پولیو ٹیم کے اراکین کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا کہ انہیں پولیو کی حمایت میں پوسٹس لوگوں کے ساتھ شیئر کرنی چاہیئں جو اس مہم کے باعث بچوں کو ویکسین پلانے سے گریزاں ہیں۔

مزید پڑھیں: نائیجیریا پولیو جنگ میں پاکستان کو شکست دینے کو تیار

خیال رہے کہ رواں برس اب تک پولیو کے 58 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 2018 میں صرف 12 کیسز اور 2017 میں صرف 8 پولیو کیسز سامنے آئے تھے۔

اس سال اب تک سب سے زیادہ کیسز خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 44 ہے، جبکہ پنجاب اور سندھ میں 5، 5 اور بلوچستان میں 4 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔

واضح رہے کہ پولیو انتہائی خطرناک متعدی بیماری ہے جس کا شکار زیادہ تر 5 سال کی عمر تک کے بچے بنتے ہیں، یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتی ہے جس کا نتیجہ معذوری یا موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

پولیو کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا اور صرف ویکسینیشن ہی وہ موثر طریقہ ہے جس کے ذریعے بچوں کو اس خطرناک بیماری سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کے معالجین نے انسدادِ پولیو مہم کے طریقہ کار کو ’ناقص‘ قرار دے دیا

یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ دنیا میں اب صرف 2 ممالک ایسے بچے ہیں جہاں پولیو کیسز اب بھی سامنے آرہے ہیں جو افغانستان اور پاکستان ہیں۔

جس کے باعث 2014 سے عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر پولیو کے سلسلے میں سفری پابندی عائد کر رکھی ہے اور بیرونِ ملک سفر کرنے والے ہر شخص کو اپنے ہمراہ پولیو ویکسینیشن سرٹیفکیٹ لے جانا پڑتا ہے۔

انسداد پولیو مہم سوشل میڈیا پر کیے گئے گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث متاثر ہوئی جس میں کہا گیا کہ ویکسین سے متعدد بیماریاں ہوتی ہیں اس لیے بچوں کو ویکسین نہ کروائی جائے۔


یہ خبر 28 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں