مقبوضہ کشمیر: لاک ڈاؤن کے باوجود 500 مظاہرے، سیکڑوں افراد زخمی

28 اگست 2019
وادی میں 5 اگست کے اقدامات کے بعد سے مکمل لاک ڈاؤن ہے—اے ایف پی
وادی میں 5 اگست کے اقدامات کے بعد سے مکمل لاک ڈاؤن ہے—اے ایف پی

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے اور علاقے میں کرفیو اور دیگر پابندیاں عائد کرنے کے باوجود کم از کم 500 احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سینئر حکومتی ذرائع نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خودمختاری کو ختم کرنے وہاں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود 500 مرتبہ احتجاج کیا جاچکا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے سے کچھ گھنٹوں قبل وادی میں سخت لاک ڈاؤن کردیا تھا، جو ابھی تک جاری ہے، اس کے ساتھ ہی نقل و حرکت محدود، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی حکام کا جھڑپوں میں جاں بحق افراد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار

یہی نہیں بلکہ مقبوضہ وادی میں پہلے سے موجود 5 لاکھ بھارتی فوجیوں کی تعداد کو مزید بڑھاتے ہوئے ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کردی گئی تھی۔

تاہم ان تمام پابندیوں کے باوجود مرکزی شہر سرنگر میں بھی احتجاج کیا گیا، جہاں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

ایک سینئر حکومتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ 5 اگست سے کم از کم 500 مرتبہ احتجاج اور پتھر پھینکنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ سری نگر میں ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک تقریباً 100 شہری زخمی ہوچکے ہیں جبکہ 300 پولیس اور 100 نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کو چوٹیں آئیں۔

خبررساں ادارے کو انہوں نے بتایا کہ 'ناکہ بندی کے بغیر مظاہروں کی تعداد مزید زیادہ اور بڑی ہوسکتی ہے کیونکہ عوامی مخالفت اور غصے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے ہر وقت کوششیں کی جارہی لیکن ابھی یہ سب کچھ کام کرتا نظر نہیں آرہا جبکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں اضطراب پھیلا رہا ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مواصلاتی رابطوں کے معطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو دیہی علاقوں سے متعلق معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں اپنے رپورٹر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خلاف ورزی کے اقدام پر رہائشی معمولات زندگی پر واپس آنے سے انکار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2 منٹ کی فون کال کیلئے مقبوضہ کشمیر میں طویل قطاریں

انتظامیہ کی جانب سے اگر اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا ہے لیکن طلبہ وہاں جانے سے قاصر ہیں جبکہ انہیں پورے دن کھولنے یا 'کبھی نہ کھولنے کا کہا جاتا ہے'، اس کے علاوہ مختلف دکانیں ابھی بھی بند ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اے ایف پی کو سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ وادی سے کم از کم 4 ہزار لوگوں کو حراست میں لیا گیا، جن میں تاجر، اساتذہ، کارکنان اور مقامی سیاست دان تھے، ان میں سے کچھ کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔

ادھر ایک اور سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ 5 اگست کے بعد سے تقریباً ایک ہزار 350 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جنہیں پولیس 'پھترمارنے' والا قرار دے رہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھا دیا تھا، بعدازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں