مقبوضہ کشمیر: بھارتی حکام کا جھڑپوں میں جاں بحق افراد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 27 اگست 2019
متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے  5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں — فوٹو: بشکریہ زبیر صوفی دی انڈپینڈنٹ
متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں — فوٹو: بشکریہ زبیر صوفی دی انڈپینڈنٹ

بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل لگائے گئے کرفیو کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں جاں بحق افراد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کرنے سے انکار کردیا ہے تاکہ ہلاکتوں کی تعداد کو کم ظاہر کیا جاسکے۔

برطانوی اخبار دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے ’ گھوسٹ آف کشمیر: بھارتی حکام کا جھڑپوں میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس کے اجرا سے انکار‘ کے عنوان سے شائع کی گئی رپورٹ میں متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس کے سربراہ دل باغ سنگھ نے کہا کہ ’کرفیو کے نتیجے میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی‘ اور بھارتی حکومت کے ترجمان روہت کنسال نے کہا کہ انہیں شہریوں کی ہلاکت سے متعلق کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

سری نگر میں دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ ہسپتال کے عملے کو بھارتی حکام کی جانب سے واضح طور پر زبانی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ ’جھڑپوں کے دوران زخمیوں کی تعداد کم رکھنے کے لیے متاثرہ افراد کو فوری طور پر ڈسچارج کیا جائے ‘۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: اسلحہ واپس لینے کے بعد مقامی پولیس کی بھارتی فوج سے جھڑپیں

رپورٹ میں جھڑپوں کے دوران جاں بحق 3 افراد سے متعلق تفصیلات شامل ہیں جن کے اہلِ خانہ کو ڈاکٹروں کو باضابطہ طور پر جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں سے آگاہ کرنے اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کے حصول میں مشکلات سے آگاہ کیا۔

اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ جھڑپوں میں جاں بحق افراد میں 55 سالہ ایوب خان بھی شامل تھے جو اپنے خاندان کے سرپرست تھے اور ان کی 3 بیٹیاں ہیں۔

ایوب خان 17 اگست کو سری نگر کے علاقے یاری پورہ میں بھارتی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں جاں بحق ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ایوب خان کے 60 سالہ دوست فیاض احمد خان نے کہا کہ ’جب بھارتی فورسز نے آنسو گیس کے کنستر برسائے ہم دونوں ساتھ کھڑے تھے، ان میں سے کچھ کنستر ایوب خان کی ٹانگوں پر آکر گرے اور ان کا دم گھٹنا شروع ہوگیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سید علی گیلانی کا 5 نکاتی لائحہ عمل کا اعلان، پاکستان سے مدد کی اپیل

فیاض احمد خان نے کہا کہ ’ایوب خان کو فوری طور پر شری مہاراجہ ہری ہسپتال ( ایس ایم ایچ ایس) لے جایا گیا تھا‘۔

ایوب خان کے بھائی شبیر نے کہا کہ ’جب ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان (ایوب خان) کا انتقال ہوچکا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ ہم نے ریکارڈ میں موت کی وجہ آنسو گیس درج کرنے کا کہا لیکن ڈاکٹر نے انکار کردیا‘۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے ایوب خان کے انتقال پر عوام کی جانب سے احتجاج کے خدشے کے باعث ان کے اہلِ خانہ کو تدفین میں شریک افراد کی تعداد 10 تک محدود کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایوب خان کے بھائی شبیر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد جب ایمبولینس میں میت گھر لائے تو سیکیورٹی فورسز نے ان کے گھر میں جمع دیگر افراد کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز برسائے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چوتھے ہفتے میں داخل، پابندیاں بدستور برقرار

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایوب خان کے اہلِ خانہ نے چند روز بعد ہسپتال حکام سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کہا جس پر ڈاکٹرز نے بتایا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے انہیں واقعے کی ایف آئی آر لازمی جمع کروانی ہے جبکہ موجودہ صورت حال میں ایف آئی آر درج کروانا ناممکن ہے۔

شبیر نے بتایا کہ ’یہ واضح ہے کہ پولیس کے خلاف کسی کیس میں ہسپتال حکام موت کی اصل وجہ نہیں درج کریں گے، یہ ناانصافی ہے، ہم جاں بحق افراد کی تعداد رجسٹر کروانے میں ناکام ہیں، ہم بے بس ہیں‘۔

دوسری جانب سری نگر میں موجود پولیس حکام نے کہا کہ وہ ہلاکتوں کے اصل اعداد و شمار دینے میں ناکام ہیں لیکن وہ دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی کے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعدازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے رابطے میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔

22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔


یہ خبر دی انڈپینڈنٹ میں شائع زبیر صوفی کی رپورٹ سے لی گئی ہے

تبصرے (0) بند ہیں