کراچی سے متعلق وفاق کے تمام آئینی اقدامات کی حمایت کریں گے، میئر کراچی

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2019
وسیم اختر نے کہا کہ اگر کراچی کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کے دیگر علاقوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز
وسیم اختر نے کہا کہ اگر کراچی کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کے دیگر علاقوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز

میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے وفاقی حکومت آئینی حدود میں رہ کر جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اس کی حمایت کریں گے۔

میئر کراچی نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا ہے جب ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے انکشاف کیا تھا کہ وفاقی حکومت آئینی شق کا استعمال کر کے کراچی کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لینے پر غور کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: وفاق کے پاس کراچی میں 149 کے تحت اختیارات کے استعمال کا صحیح وقت ہے، فروغ نسیم

جمعرات کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ میٹروپولیٹن سٹی کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت آئینی حدود میں رہتے ہوئے جو بھی اقدامات کرے گی، وہ اس کی حمایت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پورے ملک کو ریونیو فراہم کرتا ہے، دو ساحلوں کے حامل اس شہر میں 3 کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں اور اسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اگر اس شہر کو نظر انداز کیا گیا تو ملک کے دیگر علاقوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا، لوگ کاروبار اور نوکریوں کے لیے ملک بھر سے یہاں کا رخ کرتے ہیں اور آپ اسے تباہ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’کراچی پر غیر آئینی قبضے کی کوشش کی گئی تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا‘

ادھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ایک ایسا بلدیاتی نظام نافذ ہے جو آئین سے براہ راست متصادم ہے۔

انہوں نے کراچی میں آئین کے آرٹیکل 149 کے نفاذ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر آرٹیکل 140(اے) پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو شاید دوسرے آرٹیکلز کی ضرورت نہ پڑتی۔

گزشتہ روز ڈاکٹر فروغ نسیم نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی کے حوالے سے قائم اسٹریٹجک کمیٹی شہر کی بہتری کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 149 کے نفاذ کا مشورہ دے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ کابینہ سے منظوری کے بعد اسے نافذ کردیا جائے گا اور اگر صوبائی حکومت اس سلسلے میں کسی قسم کی مزاحمت کرتی ہے تو ہم آئین کے آرٹیکل 184 ون کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے کہ وہ اس حوالے سے ہدایات جاری کریں لیکن اگر اس کے باوجود صوبائی حکومت نے مزاحمت کی تو ہم توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔

مزید پڑھیں: ’18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو لات مار کر حکومت گرادیں گے‘

مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم نے واضح کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ وفاقی حکومت کو سندھ کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لینے چاہئیں اور اس سلسلے میں کوئی فیصلہ وزیر اعظم 14ستمبر کو اپنے دورہ کراچی کے دوران لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قابل از وقت ہو گا کہ وفاقی حکومت میری تجویز پر عمل کرتی ہے یا نہیں لیکن آرٹیکل 149 فور کے نفاذ کے سوا کوئی حل نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں