’مقبوضہ کشمیر میں مزید ایک لاکھ 80 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات‘

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2019
مذہبی آزادی پر پابندی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام خوراک اور ادویات کی قلت کا شکار ہیں —تصویر: اے ایف پی
مذہبی آزادی پر پابندی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام خوراک اور ادویات کی قلت کا شکار ہیں —تصویر: اے ایف پی

اسلام آباد: سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 45 روز سے جاری مسلسل لاک ڈاؤن کے ساتھ وادی میں 9 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے بھارت نے مزید ایک لاکھ 80 ہزار فوجی، نیم فوجی دستے اور دیگر اہلکار تعینات کردیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں انہوں نے بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی انسانی حقوق، اس کی خلاف ورزیوں اور سیکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دیں،پھر بتاؤں گا لائن آف کنٹرول کب جانا ہے، وزیراعظم

بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ بھارتی جارحیت میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ کوئی بھی شر انگیزی کر کے اس کا الزام پاکستان پر دھرنے سے دریغ نہیں کرے گا جبکہ بین الاقوامی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے 6 ہزار افراد کو گرفتار کر کے بھارت کی مختلف جیلوں میں بھیجا جاچکا ہے جہاں انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذہبی آزادی پر پابندی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام خوراک اور ادویات کی قلت کا شکار ہیں‘۔

سہیل محمود نے بتایا کہ مقبوضہ وادی میں مواصلاتی رابطے منقطع ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے عالمی رہنماؤں سے رابطہ کر کے وادی کشمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکیت سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان سے کوئی کشمیر لڑنے گیا تو وہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم کرے گا‘

عہدیدار کے مطابق حکومت پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سیکیورٹی کونسل کی صدر سے رابطہ کر کے انہیں بھارتی فوج کے مظالم سے آگاہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت پاکستان، بیرونِ ملک پاکستانیوں اور عالمی میڈیا کی مشترکہ کاوشوں سے مقبوضہ کشمیر پوری دنیا کی بھرپور توجہ کا مرکز بن چکا ہے، جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا'۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام بحال کرنے کا مطالبہ

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

ادھر برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے 6 ستمبر کو اعداد و شمار جاری کیے تھے جن کے مطابق 3 ہزار 800 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس میں 2 ہزار 600 افراد رہا کردیے گئے۔

مزید پڑھیں: بھارت: سپریم کورٹ نے بیٹی کو محبوبہ مفتی سے ملاقات کی اجازت دے دی

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 200 سیاستدان گرفتار ہیں، جس میں 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت مخالف جماعتوں سے ہے۔

اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن مقبوضہ وادی کی حالیہ تاریخ کی ’واضح اور بے مثال‘ کارروائی ہے اور ان گرفتاریوں سے وادی میں بڑے پیمانے پر خوف ہراس پھیلا ہے۔

اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

تاہم ان سب پابندیوں کے باوجود ہمالیائی وادی میں گزشتہ 7 ہفتوں سے بھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں