37 سال سے شریف خاندان کے زیرِِِ ‘قبضہ‘ سرکاری اراضی واگزار

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2019
قبضے میں لی گئی 36 کنال اراضی میں سے 16 کنال زمین خالی تھی — فوٹو: ڈان
قبضے میں لی گئی 36 کنال اراضی میں سے 16 کنال زمین خالی تھی — فوٹو: ڈان

لاہور: پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے شریف خاندان کی جانب سے ساہیوال میں قائم اتفاق شوگر ملز سے 37 سال قبل مبینہ طور پر قبضے میں لی گئی 36 کنال سرکاری اراضی واگزار کرالیا۔

اے سی ای نے بتایا کہ اتفاق شوگر ملز نے 36 کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کیا تھا اور 1982 میں اس زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کیا تھا۔

تاہم اتفاق شوگر ملز نے ایک اور شوگر مل کے قیام کے لیے اپنی مشینری رحیم یار خان منتقل کی تھی بعدازاں سپریم کورٹ نے شوگر ملز کی منتقلی کو روک دیا تھا۔

ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر، ریونیو اور پولیس حکام کے تعاون سے سرکاری ارضی واگزار کروانے کے بعد اے سی ای کے سربراہ گوہر نفیس نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی اور قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے ملز مالکان سے 37 سال کے کرائے کے حصول کے لیے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 2 شوگر ملز سیل کرنے کا حکم

ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’اے سی ای کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے سے متعلق بیان ریکارڈ کروانے کے لیے شریف خاندان کو جلد نوٹسز جاری کیے جائیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ذرائع سے رپورٹ حاصل کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر پاک پتن اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مذکورہ معاملہ اٹھایا گیا تھا جنہوں نے اتفاق ملز کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضے کی تصدیق کی تھی۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ ’اس اقدام کو سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جائے کیونکہ اے سی ای سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے والے افراد کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کررہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کو شوگر ملز کی منتقلی سے روک دیا گیا

گزشتہ روز اے سی ای، ریونیو اور پولیس حکام نے مذکورہ مقام کا دورہ کیا تھا، قبضے میں لی گئی 36 کنال اراضی میں سے 16 کنال زمین خالی تھی اور دیگر اراضی پر چینی کے گودام اور لیبارٹری قائم کی گئی تھیں۔

عہدیدار کے مطابق قبضے میں لی گئی سرکاری اراضی کی مالیت 2 کروڑ 25 لاکھ روپے ہے اور 1982 سے لے کر اب تک زمین کا کرایہ ادا نہیں کیا گیا جو اربوں میں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مل فعال نہیں کیونکہ شریف خاندان نے ایک اور شوگر مل کے قیام کے لیے اس کی مشینری رحیم یار خان منتقل کی تھی۔

عہدیدار نے کہا کہ ساہیوال میں قائم مل کچھ عرصے سے فعال نہیں تھی لیکن اس کے مالکان کے پاس زمین کا قبضہ موجود تھا۔

علاوہ ازیں اے سی ای کی جانب سے کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف سے پاک پتن میں بابا فرید کے مزار سے منسلک زمین کی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق 3 دہائی پرانے کیس کی دوبارہ پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کا مزید جسمانی ریمانڈ مسترد، جیل منتقل

2 ماہ قبل اے سی ای کی 4 رکنی ٹیم نے مذکورہ کیس سے متعلق جیل میں نواز شریف کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔

تاہم نواز شریف اے سی ای کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اتنی پرانی بات کیسے یاد رکھ سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جب اے سی ای ٹیم نے نواز شریف سے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے 1986 میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمین الاٹ کرنے کے الزام سے متعلق جواب طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ 30 سال پرانا کیس ہے اور مجھے اس حوالے سے کچھ یاد نہیں، میری قانونی ٹیم اس حوالے سے جواب دے گی‘۔

اس سے قبل رواں برس مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کے خلاف 17 دسمبر 1969 کا نوٹیفکیشن واپس لینے اور 1986 میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزار کے گرد محکمہ اوقاف کی 14 ہزار 394 کنال زمین دیوان غلام قطب کو الاٹ کرنے کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی تجویز دی تھی، جے آئی ٹی نے کارروائی کے لیے کئی افراد کے نام بھی تجویز کیے تھے۔


یہ خبر 29 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں