پشاور ہائیکورٹ نے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت حراست میں لیے گئے تمام ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی 50 ہزار روپے فی کس ضمانتی مچلکے اور اچھے سلوک کی تحریری یقین دہانی پر ضمانت منظور کرلی اور حکومت کو تمام افراد کو رہا کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے اپنے مختلف فیصلوں میں کہا کہ زیر حراست ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کو اپنے متعلقہ ہسپتالوں میں واپسی سے متعلق ایک حلف نامہ بھی جمع کرانا ہوگا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی رہائی سے قبل 2 ذاتی ضمانتیں بھی فراہم کرنی ہوں گی۔

خیال رہے کہ 27 ستمبر کو پشاور میں 16 ڈاکٹرز و دیگر اسٹاف کو گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور میں ڈاکٹروں کا احتجاج، پولیس کی کارروائی، متعدد افراد زخمی

پولیس کی جانب سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حدود میں ریجنسل اینڈ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز ایکٹ 2019 کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تھی جبکہ اس دوران گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی تھیں۔

تاہم اس معاملے پر آج ہونے والی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایت بھی کہ وہ پشاور میں ڈاکٹرز پر مبینہ تشدد کی تحقیقات کرے اور 14 روز میں ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار کو تفصیلی انکوائری رپورٹ جمع کروائے۔

قبل ازیں دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قیصر شاہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ جس دن تصادم ہوا، اس روز ضلعی انتظامیہ نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی انتظامیہ کی درخواست پر ہسپتال کی حدود میں دفعہ 144 نافذ کی تھی۔

اس پر ڈاکٹروں کے وکلا کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف وہاں صرف اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے جمع تھے کہ پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی۔

سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت ڈاکٹرز نے مریضوں کے علاج سے انکار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کا رویہ بھی نامناسب تھا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ وہ اس احتجاج کے دوران عوامی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ریکارڈ بھی پیش کریں۔

دوران سماعت عدالت نے سرکاری نمائندے کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'آپ نے تعلیم یافتہ لوگوں پر تشدد کرکے بہت ناانصافی کی'۔

اس سے قبل جمعرات کو عدالت میں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عبدالشکور کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے گرفتار ڈاکٹروں کی رہائی سے متعلق دو درخواستوں کی سماعت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور میں ڈاکٹرز کا احتجاج ناکام بنانے کے لیے پولیس کا ایکشن

تاہم عدالت نے زیر حراست افراد کی رہائی کے لیے صوبائی حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر سماعت کو ملتوی کردیا گیا تھا۔

عدالت کی جانب سے حکومت اور ڈاکٹروں کے وکلا کو کچھ وقت دیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں۔

ریجنل و ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی بل 2019

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے ریجنل و ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی بل 2019 میں اپوزیشن اراکین کی تجاویز بھی شامل کرلیں تاہم ایوان میں حزب اختلاف کی غیر موجودگی میں بھی قانون کو منظور کرلیا۔

قانون کی منظوری کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

ریجنل و ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی بل 2019 کے اہم نکات:-

• ریجنل سطح کے علاوہ ضلعی سطح ہیلتھ اتھارٹیز قائم کی جائیں گی۔

• وزیر صحت ہیلتھ اتھارٹی کو تحلیل کرنے کے مجاز ہوں گے۔

• ہیلتھ اتھارٹیز کو وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے معالی معاونت فراہم کی جائے گی۔

• طبی آلات کی خریداری صوبائی حکومت خود کرے گی۔

• نئی بھرتیوں میں ڈاکٹر سول سرونٹ نہیں کہلائیں گے۔

• صوبائی حکومت قوائد وضوابط میں تبدیلی کی مجاز ہوگی۔

• ہر ریجنل ہیلتھ اتھارٹی سالانہ رپورٹ مرتب کرے گی۔

• اتھارٹی کے لیے اسکروٹنی کمیٹی کے چیئرمین بھی وزیر صحت ہوں گے۔

• تمام بی ایچ یوز، آر ایچ سیز اور دوسرے مراکز صحت اور کیٹگری ڈی ہسپتال اتھارٹی کے ماتحت ہوں گے۔

• وزیراعلیٰ اسکرونٹی کمیٹی کے ذریعے آر ایچ اے کے لیے ناموں کی منظوری دیں گے۔

قبل ازیں وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے اسمبلی میں خطاب میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ بل کی منظوری کے بعد میرے اختیارات ختم ہو جائیں گے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر کے ہسپتالوں کو بااحتیار بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کی جانب یہ انقلابی قدم ہے جس کے تحت ہسپتالوں کو سالانہ ون لائن بجٹ دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر ہشام خان کا کہنا تھا کہ سیاسی مداخلت کے خاتمے سے ہی ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں