محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں تعیناتیاں عدالت میں چیلنج

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2019
کامیاب امیدواروں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر ان کی قسمت کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
کامیاب امیدواروں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر ان کی قسمت کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتی کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کردیا گیا۔

درخواست گزار پاکستان ریلویز ایمپلائی (پریم) یونین نے دعویٰ کیا کہ نو تعینات شدہ زیادہ تر ملازمین کا تعلق راولپنڈی کے 2 حلقوں سے ہے، جس میں ایک حلقہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد جبکہ دوسرا ان کے بھتیجے شیخ رشید شفیق کا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلویز ایمپلائی نے اپنے وکیل عمران شفیق کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست جمع کروائی، جس میں مذکورہ تعیناتیوں کو منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی۔

درخواست کے مطابق ریلوے حکام نے اکتوبر 2018 میں بی ایس 1 سے بی ایس 5 تک کی 323 آسامیوں کے لیے اشتہار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتیوں کا آغاز

جس کے صرف ایک ماہ بعد ایک اور اشتہار دیا گیا اور خالی آسامیوں کی تعداد 323 سے بڑھا کر 845 تک کردی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان ملازمتوں کے لیے ہزاروں افراد نے اپلائی کیا لیکن تعیناتیاں میرٹ کے بجائے قرعہ اندازی کے ذریعے کی گئیں جبکہ ’قرعہ اندازیوں کے ذریعے تعیناتیاں ملکی قوانین کے برعکس' ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’جن امیدواروں نے مہارت اور تحریری امتحان میں سب سے زیادہ نمبر اور انٹرویو میں اپنے آپ کو ثابت کیا ہو وہ میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کے مستحق تھے۔

تاہم ریلوے حکام نے اس معیار کو تبدیل کرتے ہوئے کامیاب امیدواروں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال کر ان کی قسمت کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا۔

مزید پڑھیں: ملک بھر کے ریلوے پھاٹک پر 2 ہزار چوکیداروں کی بھرتی کا فیصلہ

عدالت کو درخواست کے ذریعے بتایا گیا کہ نام نہاد امیدواروں کی نصف سے زائد تعداد موجودہ وزیر ریلوے کے حلقے سے تعلق رکھتی ہے اور درخواست کی کہ معزز عدالت اس پہلو کی جانچ کرے اور عدالتی نظرِ ثانی کے لیے ریکارڈ طلب کرے۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ ’خفیہ قرعہ اندازی صرف ’منظور نظر‘کو منتخب کرنے کے لیے کی گئی اور یہ افسوس کی بات ہے کہ متعلقہ افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور سیاسی اشرافیہ کے مفادات کے لیے ان کے ہاتھوں میں کھیلے۔

لاہور ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ 58 آسامیاں اوپن میرٹ، 20 فیصد ریلوے ملازمین کی اولادوں کے لیے مختص کوٹے، 10 فیصد سابق ملازمین، 5 فیصد یتیم اور کسی جسمانی محرومی کا شکار جبکہ 2 فیصد آسامیاں معذور افراد کو دی جانی تھیں۔

مزید پڑھیں: وزیر ریلوے شیخ رشید کا تین نئی ٹرینیں چلانے کا اعلان

تاہم درخواست کے مطابق قرعہ اندازی سے کی گئیں بھرتیوں میں ان کوٹوں کو بھی مدِ نظر نہیں رکھا گیاْ۔

اس سلسلے میں جب پاکستان ریلوے کے چیئرمین سکندر سلطان راجا سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بی ایس 1 سے بی ایس 4 تک کی اسامیوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے تعیناتی کی ہدایت وفاقی حکومت نے کی تھی تاہم کسی قسم کے اختلاف کی صورت میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کی تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں