زیارت ریزیڈینسی حملہ: 33 میں سے 15 ملزمان عدم شواہد پر بری

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2019
ایک سال بعد صوبائی حکومت نے زیارت ریزیڈینسی کو اس کی اصلی شکل و صورت میں بحال کردیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی
ایک سال بعد صوبائی حکومت نے زیارت ریزیڈینسی کو اس کی اصلی شکل و صورت میں بحال کردیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیام گاہ ’زیارت ریزیڈینسی‘ پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے سے متعلق کیس میں نامزد 15 ملزمان کو بری کردیا۔

اے ٹی سی جج رحیم داد خلجی نے عدم شواہد پر مقدمے میں نامزد 33 ملزمان میں سے 15 ملزمان کی رہائی کا فیصلہ سنایا، اس موقع پر ملزمان کی جانب سے ایڈووکیٹ ممتاز شوکت رخشانی اور جعفر اعوان پیش ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقدمے سے بری ہونے والے 15 میں سے صرف 2 ملزمان قید تھے جبکہ 13 ملزمان پہلے ہی ضمانت پر رہا تھے۔

مقدمے میں نامزد نوابزادہ حربیار مری اور دیگر 14 ملزمان کو اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی ان کے خلاف اب تک مقدمے کی کارروائی میں کوئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زیارت: دستی بم حملے سے تاریخی قائداعظم ریزیڈنسی مکمل تباہ

ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے 15 جون 2013 کو قائداعظم ریزیڈنسی زیارت کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنایا تھا، جس سے عمارت کا ایک حصہ مکمل تباہ ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ سال 2013 میں 15 اور 16 جون کی درمیانی شب قائداعظم کی تاریخی رہائش گاہ پر دستی بموں کے حملے سے عمارت میں شدید آگ بھڑک اُٹھی تھی، جس سے قائداعظم ریزیڈینسی کی تاریخی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

بعدازاں اُس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں صوبائی حکومت نے زیارت ریزیڈینسی کو اس کی اصلی شکل و صورت میں دوبارہ تعمیر اور بحال کردیا تھا جس کا افتتاح 14 اگست 2014 کو کیا گیا تھا۔

زیارت ریزیڈینسی کا تاریخی پس منظر

قائداعظم ریزیڈنسی کی عمارت وادئ زیارت کے خوبصورت اور پُرفضا مقام پر واقع ہے، زیارت کوئٹہ سے تقریباً ایک سو 22 کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ہے۔

یہ خوبصورت اور پُروقار رہائشگاہ 1892 کے اوائل میں لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی، اس دور میں برطانوی حکومت کے اعلیٰ افسران وادی زیارت کے دورے کے دوران اس جگہ کو اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا کرتے تھے جبکہ بلوچستان کے پولیٹکل ایجنٹ بھی گرمیوں میں یہیں سے سرکاری امور انجام دیتے تھے۔

مزید پڑھیں: زیارت ریزیڈنسی حملے کی رپورٹ پیش کردی گئی

اس عمارت کے بیرونی حصے میں چاروں طرف لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا تھا، 8 کمروں پر مشتمل اس رہائش گاہ میں دونوں اطراف سے مجموعی طور پر 28 دروازے بنائے گئے تھے۔

اس رہائشگاہ کی تاریخی اہمیت میں قیام پاکستان کے بعد 1948 کے دوران اس وقت اضافہ ہوا، جب یکم جولائی کو بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح طبیعت ناساز ہونے کے باعث یہاں تشریف لائے اور اپنی زندگی کے آخری 2 ماہ 10 دن اس رہائشگاہ میں قیام کیا۔

قائداعظم کے انتقال کے بعد اس رہائشگاہ کو 'قائداعظم ریزیڈنسی' کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا جہاں قائداعظم کے زیر استعمال رہنے والی اشیا کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زیارت ریزیڈنسی کیس:حربیار مری پر فرد جرم عائد

یہاں قائداعظم کے زیرِ استعمال کمروں میں ایسی کئی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں، جو قائداعظم نے اپنی بیٹی، بہن، بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ کھنچوائی تھیں لیکن اب یہ سارا تاریخی ورثہ راکٹ حملے سے لگنے والی آگ سے جل کر خاکستر ہوگیا۔

واضح رہے کہ قائداعظم ریزیڈنسی کی یہ باوقار عمارت بلوچستان کی پہچان ہے، بہت سے ٹی وی چینلز بلوچستان کے آئیکون کے لیے اسی عمارت کی تصویر کو استعمال کرتے تھے جبکہ 100 روپے کے کرنسی نوٹ کے پچھلے حصے پر اسی عمارت کی تصویر موجود ہے۔

اکتوبر 2008 کو زیارت، پشین اور دیگر علاقوں میں آنے والے زلزلے کے باعث اس عمارت کو بھی جزوی نقصان پہنچا تھا تاہم پاک فوج نے عمارت کی دوبارہ مرمت اور تزئین و آرائش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں