انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن بظاہر غیرموثر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
وزارت داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی لگائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی لگائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے کے مطابق اس پابندی کا نوٹیفکیشن ہی غیرموثر ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے معاملے پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل (منگل) کو عدالت میں طلب کرلیا۔

عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی، اس دوران جے یو آئی (ف) کی جانب سے وکیل کامران مرتضیٰ پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) کا انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع

سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انصار الاسلام پرائیویٹ ملیشیا تو نہیں بلکہ یہ ہماری جمعیت علمائے اسلام (ف) کا حصہ ہے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پرائیویٹ ملیشیا تو نہیں لیکن ڈنڈے تو ہیں۔

اس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے، جس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اگر تو یہ سیاسی جماعت کے ممبر ہیں تو پھر تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیرموثر ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں؟ جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جی ہمیں وزارت داخلہ نے سنے بغیر پابندی لگا دی۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ خاکی وردی کے بجائے سفید پہن لیں تو پھر اس پر کیا ہوگا؟ اس پر وکیل نے کہا کہ قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کم از کم آپ کو حکومت پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ 24 اکتوبر کو وزارت داخلہ نے انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اس پر پابندی لگادی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی عائد

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزارت داخلہ نے جے یو آئی (ف) کو سنے بغیر پابندی لگائی، اس معاملے پر وزارت داخلہ مطمئن کرے کہ کیسے بغیر سنے پابندی لگادی۔

عدالت نے انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق وزارت داخلہ کے افسر کو طلب کرتے ہوئے سماعت کل (29 اکتوبر) تک کے لیے ملتوی کردی۔

انصار الاسلام پر پابندی

واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی عائد کردی تھی۔

کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے انصار الاسلام پر پابندی کی منظوری دی تھی اور کابینہ ارکان سے تنظیم پر پابندی کی منظوری بذریعہ سرکولیشن دی گئی تھی۔

اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 256 اور 1974 ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت انصار الاسلام پر پابندی عائد کی جائے گی اور مشاورت کے بعد وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کے ذریعے صوبوں کو انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کا اختیار سونپے گی۔

بعد ازاں 24 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے صوبوں کو انصار الاسلام کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا اختیار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: جب تک زندہ ہوں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، وزیراعظم

تاہم 26 اکتوبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وفاقی حکومت کی جانب سے اپنی ذیلی تنطیم ’انصار الاسلام‘ پر پابندی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی فورس 'انصار الاسلام' کے دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن محافظ دستے سے سلامی لیتے نظر آئے تھے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں