جے یو آئی (ف) کا انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
درخواست میں کہا گیا کہ حکومت آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی اسے روکنے کی کوشش کررہی ہے 
— فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست میں کہا گیا کہ حکومت آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی اسے روکنے کی کوشش کررہی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وفاقی حکومت کی جانب سے اپنی ذیلی تنطیم ’انصار الاسلام‘ پر پابندی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے 24 اکتوبر کو صوبوں کو انصار الاسلام کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا اختیار دیا تھا۔

وفاقی حکومت کے مطابق مذکورہ تنظیم جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ملٹری ونگ کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

جس کے بعد وفاقی حکومت کے مذکورہ فیصلے کے خلاف جمیعت علمائے اسلام (ف) نے اپنے وکیل کامران مرتضیٰ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی عائد

اس حوالے سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’حکومت جے یو آئی کے مطالبات سے خوفزدہ ہو کر جماعت کے خلاف مہم چلارہی ہے اور مختلف طریقوں سے آواز دبانے اور آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی اسے روکنے کی کوشش کررہی ہے‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ حکومت محکمہ قومی انسداد دشت گردی کے ذریعے حملوں کے خطرات سے متعلق الرٹ جاری کرکے عوام میں افراتفری پھیلا کر آزادی مارچ میں شرکت سے روکنے کی کوششیں بھی کررہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کرنے سے قبل جمیعت علمائے اسلام (ف) یا انصار الاسلام کو کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے کچھ سننے کا حق بھی چھین لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری

درخواست کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف)، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے منظور شدہ جماعت ہے اور کمیشن میں جمع کروائے گئے پارٹی آئین میں انصار الاسلام کا نام بھی شامل ہے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ پرائیویٹ ملٹری آرگنائزیشنز ایکٹ 1974 کا حالیہ استعمال اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طریقے سے اس قانون کو کسی بھی پُرامن تنظیم کے احتجاج کو روکنے اور اس کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس کا کسی مجرمانہ یا دہشت گرد سرگرمیوں سے کوئی تعلق بھی نہ ہو۔

واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ سے قبل ہی مدارس کی نگرانی شروع

کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے انصار الاسلام پر پابندی کی منظوری دی تھی اور کابینہ ارکان سے تنظیم پر پابندی کی منظوری بذریعہ سرکولیشن لی گئی تھی۔

اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 256 اور 1974 ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت انصار الاسلام پر پابندی عائد کی جائے گی اور مشاورت کے بعد وفاقی حکومت، وزارت داخلہ کے ذریعے صوبوں کو انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کا اختیار سونپے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلوں کے مطابق اپوزیشن کو احتجاج کا حق دیا جائے گا، وزیر دفاع

یاد رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی فورس 'انصار الاسلام' کے دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن محافظ دستے سے سلامی لیتے نظر آئے تھے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں