وزیراعظم سے متعلق فضل الرحمٰن کا بیان، حکومتی کمیٹی کا عدالت جانے کا اعلان

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2019
وزیردفاع حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں—فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیردفاع حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں—فوٹو: اسکرین شاٹ

حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی مجمع کے ہاتھوں گرفتاری سے متعلق دیے گئے بیان پر عدالت جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوگی، اس بارے میں کوئی سوچیں بھی نہیں۔

اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذکراتی ٹیم کے اراکین نے پریس کانفرنس کی۔

اس موقع پر وزیردفاع اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں بہت سے امور پر متفقہ بات چیت ہوئی، ہم ابھی بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، جس کے پیچھے ان کے مقاصد ہے، جیسے آج کل مسئلہ کشمیر بہت گھمبیر تھا لیکن وہ پیچھے چلا گیا، اس کا فائدہ تو بھارت کو پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی کی خواہش کے مطابق ایچ نائن میں انہیں جگہ دی گئی اور رہبر کمیٹی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی مولانا فضل الرحمٰن نے توثیق کی جبکہ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’حکومت اپنے الفاظ پر قائم ہے اور معاہدے پر پیچھے نہیں ہٹے گی‘۔

دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ رہبر کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی سے رابطے میں ہیں اور مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک یا کسی چیز کو نقصان پہنچا تو یہ ذمہ داری اپوزیشن پر آئے گی کیونکہ انہوں نے معاہدہ کیا ہے، عمران خان نے انہیں کھلے دل سے آنے کی اجازت دی لیکن اگر اپوزیشن والے دھونس دھمکی دیتے ہیں اور اپنی بات پر پورا نہیں اترتے تو مطلب ہے کہ یہ زبان کے کچے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

وزیر دفاع پرویز خٹک نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے پشاور موڑ پر طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ کیا تو ذمہ دار رہبر کمیٹی ہوگی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ نہ کرتے تو پھر آزاد ہوتے لیکن اگر کچھ ہوگا تو یہ ان کے گلے پڑے گا، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوتی تو آپ لوگ سوال کرسکتے ہیں لیکن اگر معاہدہ وہ توڑتے ہیں تو آپ کو بتانا پڑے گا۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی پریس میں انہوں نے کہا کہ کل جو تقریری ہوئی اس پر بہت افسوس ہوا جس میں اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی۔

ساتھ ہی وزیردفاع نے کہا کہ 'کل کی تقریروں میں زیادہ تنقید اداروں پر کی، یہ پاکستان کے ادارے ہیں، آئی ایس پی آر نے بھی کل بیان دیا کہ جو جمہوری حکومت ہوتی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے، اداروں نے ملک کو بچایا، شہادتیں اور قربانیاں دیں، علاقہ غیر کو صاف کروایا تو اگر یہ اداروں کے خلاف بولیں گے تو پاکستان میں کون کام کرے گا، لہٰذا انہیں ملک دشمنی نہیں کرنی چاہیے، یہ ہمارے اور ان سب کے ادارے ہیں۔

شہباز شریف کی بات کہ ادارے 10 فیصد حمایت کرتے سے متعلق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'انہیں اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے تھا کہ نواز شریف اقتدار میں کیسے آئے، جنرل جیلانی سب کو یاد ہیں'۔

پرویز خٹک نے کہا کہ فوج ایک غیرجانبدار ادارہ ہے اور جب ایک ادارہ غیرجانبدار ہوا تو انہیں تکلیف ہے، جس سے واضح ہے کہ یہ کسی کی پشت پناہی پر چلتے رہے، تاہم ادارے غیرجانبدار کردار ادا کر رہے ہیں، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جو ادارے ہوتے ہیں چاہے فوج ہو یا بیوروکریٹس یہ سب حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں، اس کو کئی الگ نہیں کرسکتا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے وہ استعفے کا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ 30 سے 40 ہزار لوگ آکر استعفیٰ مانگنے لگ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ پھر ملک میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔

مزید پڑھیں:آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن

حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت نہیں چاہتے اور زور زبردستی سے حکومت کو توڑنا چاہتے ہیں جو پاکستان جیسے بڑے ملک میں کبھی نہیں ہوسکتا، یہ کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے کہ 50 ہزار لوگ آکر تختہ الٹ دیں، ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔

کہا کہ رہبر کمیٹی کے سیاسی لوگوں کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنی بات پر کھڑے بھی ہونا چاہیے، دوہرا معیار رکھنا نقصان پہنچاتا ہے۔

پریس کانفرنس میں پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزشین کی جانب سے کہا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم نے بھی کہا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی لیکن ہم الیکشن کمیشن، اسمبلی اور عدالتوں میں گئے، جس کے بعد ہم سڑکوں پر آئے لیکن یہ لوگ تو کہیں بھی نہیں گئے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے انتخابات میں دھاندلی پر کوئی ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا، تاہم ہم ابھی بھی تیار ہیں اگر ان کے پاس کچھ ثبوت ہے تو کمیٹی کو پیش کریں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ہم ان سے دوگنا ووٹ سے جیتے ہیں، ہم نے اپنے علاقوں میں لوگوں کے لیے کام کیا جبھی اس کے نتائج آئے ورنہ باتوں سے ایسے نتائج نہیں آتے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں چند عقل مند لوگ ہیں جو کبھی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے شرکا کی جانب سے آگے بڑھنے کا اعلان نقصان دہ ہوگا، ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر مجبور کیا جائے تو پھر اس پر جو ہوگا وہ سب کے سامنے ہوگا۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’ملک میں معیشت کا گراف بہتری کی طرف گامزن ہے تاہم ابتدائی مرحلے میں سخت نوعیت کے فیصلے لینے پڑھیں‘۔

مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر عدالت جانے کا فیصلہ

اپنی گفتگو کے دوران پرویز خٹک نے بتایا کہ کور کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے جو کہا کہ عوام جاکر عمران خان سے استعفیٰ لیں گے، اس بیان پر ہم عدالت جارہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور یہ بغاوت ہے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ہمارا مقدمہ تیار ہورہا ہے اور ہم عدالت میں جائیں گے۔

دوران پریس کانفرنس سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کو مخاطب کرکے سوال اٹھایا کہ وہ بتائیں کہ ’فوج نے انہیں پولیسنگ، کچہری، تعلیمی اداروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے روکا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اوپر آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرائیں گے اور اگر ہم نے انہیں یہاں سے آگے آنے کی اجازت دی تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے اس لیے ہمارے پاس یہ آپشن نہیں ہے۔

مظاہرین کی ریڈ زون کی طرف مارچ کی صورت میں حکومتی اقدامات کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز خٹک نے کہا کہ وزیراعظم نگرانی کررہے ہیں اور تمام اقدامات خود بخود ایکشن میں آئیں گے، ہمارے ادارے بھارت کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں لیکن شہباز شریف اور پیپلز پارٹی سے ہمارے رابطے ہیں۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں خبردار کررہا ہوں کہ ہمارے بہت سے لوگ سفید کپڑوں میں پھر رہے ہیں اور نگرانی کررہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں