اسرائیلی فورسز نے رات گئے غزہ کے الشفا ہسپتال پر چھاپہ مار دیا اور شدید فارئرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کو گھیرے میں لے لیا ہے جہاں سینکڑوں مریض، طبی عملہ اور بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز ہسپتال میں آپریشن کررہی ہے، حماس کے سینئر جنگجو ہسپتال کے اندر دوبارہ منظم ہو گئے ہیں اور وہ ہسپتال کو اسرائیل پر حملے کرنےکیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سے اسرائیلی فورسز کی ہسپتال کے اندر بھاری فائرنگ سے مریض اور ہسپتال کا عملہ خوف ہراس میں مبتلا ہے۔
واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ کی گئی ریکارڈ کال میں ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل ٹینک نے ہسپتال کو گھیر لیا ہے، ہم خیمے کے اندر چھپے ہوئے ہیں، ہمیں کمپاؤنڈ کے آس پاس ٹینک سے فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی غیر تصدیق شدہ فوٹیج میں ہسپتال کے اردگرد شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے ایک بیان میں اسرائیلی کے ہسپتال میں چھاپے کو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی قابض فوج نے الشفاء میڈیکل کمپلیکس پر حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے اپنے من گھڑت بیانیے کا استعمال کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ ہزاروں کی تعداد میں بے گھر فلسطینی اس ہسپتال میں پناہ لے رہے ہیں، جہاں اسرائیلی فورسز نے چھاپہ مارا تھا۔
اسرائیل فورسز نے دعویٰ کیا کہ اسے ہسپتال کے نیچے سرنگوں کا ایک نیٹ ورک ملا ہے جسے حماس نے اسرائیل ڈیفنس فورس کے نومبر 2023 کے چھاپے کے دوران استعمال کیا تھا۔
تاہم حماس نے اسرائیل فورسز کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کردی ہے۔
دوسری جانب وسطی غزہ میں دیر البلاح پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 12 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 645 فلسطینی شہید اور 73 ہزار 676 زخمی ہو چکے ہیں، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں ہلاکتوں کی تعداد 1,139 ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے جاری ہیں، صیہونی بمباری سے مزید 64 فلسطینی شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیل نے رات گئے دیر البلاح کے ایک مکان پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 12 فلسطینی شہید ہوگئے۔
24 گھنٹوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں 64 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دوسری جانب مصری حکام کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ پر مذاکرات آج سے دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ 7 امدادی ٹرک جبالیہ پہنچ چکے ہیں اور 6 غزہ سٹی پہنچ چکے ہیں، 4 مہینوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ امدادی ٹرک بغیر کسی پریشانی یا مداخلت کے غزہ پہنچے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق شمالی غزہ میں شدید غذائی قلت ایک ماہ میں دگنی ہو گئی ہے، جس میں 2 سال سے کم عمر کے ایک تہائی بچے متاثر ہوئے ہیں۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 553 فلسطینی ہلاک اور 73 ہزار 546 زخمی ہو چکے ہیں، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات آج سے پھر شروع ہونے کا امکان ہے ۔ اسرائیلی مذاکراتی وفد میں موساد کے سربراہ بھی شامل ہوں گے ۔
معاہدہ ممکنہ طور پر تین مرحلوں پر مشتمل ہوگا، پہلے مرحلے میں 350 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 35 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہوگی جس کے بعد حماس کی جانب سے فوجیوں کا انخلا اور محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
مذاکرات میں قطر اور مصری حکام شریک ہوں گے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق مذاکرات سے قبل اسرائیلی کابینہ کا اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
7 اکتوبر سے غزہ میں شروع ہونے والی جنگ نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ کشیدہ صورتحال میں بچوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، چاروں طرف تباہی دیکھ کر فلسطینی بچے مختلف انداز میں اپنا تجربہ شئیر کررہے ہیں، ایسے میں ایک ننھی بچی کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔
یہ ویڈیو مختلف خبر رساں اداروں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شئیر کی گئی جن میں ٹی آر ٹی ورلڈ، الجزیرہ وغیرہ شامل ہیں، بچی کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس وقت رفع شہر میں ہے جہاں لاکھوں بے گھر شہری خوف میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
ویڈیو میں ننھی بچی کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ کس طرح غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے اسے ’برباد‘ کر دیا اور اس کے پاس واپس جانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔
جب کسی نے بچی سے جنگ کے بارے میں پوچھا تو بچی نے کہا کہ ’یہ بہت بری ہے، جنگ کی شروعات سے میرا چہرہ بھی بدصورت ہوگیا ہے۔‘
بچی اپنی بات مکمل کرنے کے دوران اپنے ہاتھ کے اشارے سے بھی کہتی ہے کہ ’جنگ سے پہلے میں خوبصورت تھی، میرا چہرہ بھرا بھرا تھا، میری زندگی بہتر تھی لیکن اب تباہی اور مردہ لاشوں کی وجہ سے ہم سب بدصورت ہو گئے ہیں، جنگ نے ہمیں برباد کر دیا ہے، میں اس طرح نہیں دکھتی تھی، میں خوبصورت تھی،لیکن جنگ نے ہمیں برا بنا دیا ہے ۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ جب ہم غزہ سے باہر نکل گئے تب بھی حالات بہتر نہیں ہوئے، میں وہاں واپس نہیں جانا چاہتی، وہاں نہ بجلی ہے، نہ خوراک، نہ بنیادی ضروریات، میں وہاں کیوں جاؤں؟ میرے والد کو بھی اسرائیلی فورسز نے گرفتار کرلیا ہے’۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر میں خوراک کی امداد کے منتظر فلسطینیوں پر ایک بار پھر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 6 فلسطینی شہید اور کم از کم 83 زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اُس واقعے سے ایک گھنٹے بعد ہوا جب اسرائیل نے جنوبی رفح میں اقوام متحدہ کے خوراک کی تقسیم کے مرکز پر بمباری کی تھی جس میں اقوام متحدہ ایجنسی کا ایک کارکن سمیت 5 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
امریکا نے زور دیا ہے کہ اسرائیل کو انسانی ہمدردی کے کام کرنے والے کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنانے چاہیے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ زمینی حملے شروع کرنے سے پہلے رفح میں پھنسے تقریباً 14 لاکھ فلسطینی شہریوں کو غزہ کے وسط میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 272 فلسطینی شہید اور 73 ہزار 24 زخمی ہو چکے ہیں۔ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے اور درجنوں کو قید کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا ہے کہ 13 مارچ کو اسرائیلی فورسز کی جانب سے رفح کے مشرقی حصے میں خوراک کی تقسیم کے ایک مرکز کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں عملے کا ایک رکن جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے ہیں۔
غزہ میں وزارت صحت نے کہا کہ مرکز میں بمباری سے مزید 4 افراد بھی مارے گئے ہیں۔
رمضان سے قبل امریکی، قطری اور مصری ثالثوں پر مشتمل وفد نےمقدس ماہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی کوشش کی تھی تاہم اس میں اب تک کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا تھا کہ اگرچہ بات چیت جاری ہے، لیکن ہم کسی معاہدے تک پہنچنے کے قریب نہیں ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جنگ کے مقاصد کے حصول کے لیے رفح میں داخل ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کو حماس کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا۔
ماہ صیام میں بھی اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری اور فائرنگ جاری ہے، اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں کی جانب رمضان المبارک میں جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اب تک اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 72 فلسطینی شہید ہوگئے۔
غزہ میں رمضان سے پہلے جنگ بندی کے لیے کوششیں کرنے والے ممالک قطر، مصر، امریکا جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے ہیں، جنگ بندی مذاکرات سے متعلق ایک ذرائع نے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’رمضان کے پہلے نصف میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر سفارتی دباؤ بھی ڈالا جائے گا۔‘
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یروشلم میں اسرائیلی فوج نے نوعمر لڑکے سمیت تین فلسطینی شہریوں کو گولی مار کر شہید کر دیا ہے۔
دوسری جانب جنین پناہ گزین کیمپ کے قریب حماس اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 184 فلسطینی شہید اور 72 ہزار 889 زخمی ہوچکے ہیں۔ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار 139 ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ رفح میں زمینی آپریشن سےحماس کاخاتمہ چاہتے ہیں۔
علاوہ ازیں امریکی سینیٹرز نے جوبائیڈن سے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روکنےکا مطالبہ کردیا، اسی حوالے سے برنی سینڈرز سمیت 8 امریکی سینیٹرز نے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھ دیا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا کہ امریکا اسرائیل پرامدادکی ترسیل میں رکاوٹ نہ بننے پر دباؤ ڈالے، دوسری جانب آسٹریلیا نے بھی اسرائیل کو جنگ میں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ قحط زدگی، بھوک و بیماری سے دوچار فلسطینی اسرائیلی جنگ کے ماحول میں روزے رکھیں گے، خیال رہے اسرائیل حماس جنگ چھٹے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔
اس سے قبل 12 مارچ کو حزب اللہ نے کہا کہ ان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے حماس کے سیاسی بیورو کے ایک اہم رکن خلیل الحیا سے ملاقات کی ہے۔
حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات کے ساتھ ساتھ حماس کی جنگی کوششوں کی حمایت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ آج (13 مارچ کو) ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے والے ہیں۔
حزب اللہ نے بارہا کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ہی اسرائیل پر اپنے حملے روکے گے۔
لیکن اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اگر غزہ میں جنگ بندی ہوتی ہے تب بھی لبنان سے حزب اللہ کو ہٹانے کا اسرائیل کا مقصد برقرار رہے گا۔
اکتوبر2023 میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے لبنان میں کم از کم 317 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر حزب اللہ کے جنگجو ہیں بلکہ 54 عام شہری بھی شامل ہیں۔
اسرائیل میں سرحد پار سے ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 10 فوجی اور 7 شہری مارے گئے ہیں۔
12 مارچ کو قطر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل اور حماس غزہ میں جنگ روکنے اور یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے معاہدے کے قریب نہیں ہیں، قطر نے خبردار کیا کہ صورت حال ’انتہائی سنگین‘ ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ’ہم کسی معاہدے کے قریب نہیں ہیں، دونوں فریقین کے درمیان اب تک کسی بات پر اتفاق نہیں ہوسکا جو معاہدے پر عمل درآمد پر موجودہ اختلاف کو دور کر سکے۔‘
غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے ماہ رمضان میں بھی جاری ہیں، خان یونس اور رفح میں بمباری کرکے مزید 67 فلسطینی شہید کردیے۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق ماہِ رمضان میں اسرائیلی فوج کی جارحیت میں کوئی کمی نہ آسکی، یکم رمضان کی طرح آج بھی شمالی غزہ کے مختلف علاقوں میں آگ اور بارود کی برسات جاری رہی۔
اسرائیلی حملوں میں مشہور فلسطینی فٹبالر محمد برکت بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
صیہونی فوج نے مغربی علاقے تلکرم میں بھی 2 فلسطینیوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔
اسرائیلی فورسز کے اہلکار ایک سویلین گاڑی میں سوار تھے جب انہوں نے ایک دکان کے اندر موجود 2 افراد پر فائرنگ کردی۔
’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کے جنوب میں کویت راؤنڈ اباؤٹ پر امدادی ٹرکوں کے انتظار میں کھڑے فلسطینیوں پر ایک بار پھر حملہ کردیا ہے، جس میں 7 افراد شہید ہو گئے۔
حملے میں زخمی ہونے والے 20 سے زائد افراد کو الشفا میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیا ہے۔
غزہ کے درجنوں افراد نے رمضان کے پہلے دن کی نماز چند روز قبل اسرائیل کے فضائی حملے سے متاثرہ مسجد کے کھنڈرات کے درمیان ادا کی۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی وزیر برائے امور خواتین امل حمد نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مقامِ خواتین کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دنیا کی تمام خواتین سے فلسطینی خواتین کی حمایت میں کھڑے ہونے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ میں غزہ سے ہوں اور غزہ میں ہمارے لوگ نسل کشی، بھوک اور پیاس کا بری طرح شکار ہیں، اسرائیلی حملوں نے تمام ضروریات زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل پر فوری طور پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا جانا چاہیے تاکہ غزہ کے لوگوں کو رمضان کے دوران فوری ریلیف مل سکے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے رمضان میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔
انتونیو گوتیرس نے نشاندہی کی کہ مسلمانوں کا امن و سلامتی پھیلانے والا ماہ مقدس رمضان شروع ہوگیا ہے، رمضان میں بھی غزہ میں خون ریزکارروائیاں جاری ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ماہ رمضان کا احترام کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی جائے اور امداد کی رسائی میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔
واضح رہے کہ7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 31 ہزار 45 ہوچکی ہے جبکہ 72 ہزار 760 زخمی ہوگئے۔
ماہ رمضان میں بھی اسرائیلی فوج کی جارحیت نہ رک سکی، یکم رمضان کی رات اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کے علاقے رفح میں بمباری کی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنوبی غزہ کے شہر رفح اور وسطی حصے میں نوصیرات پناہ گزین کیمپ پر حملے کیے ہیں۔
راتوں رات یہ حملے ایسے وقت ہوئے جب غزہ میں فلسطینی رمضان کا پہلا روزہ رکھنے کی تیاری کر رہے تھے۔
اسرائیلی بمباری کے باعث 10 فلسطینی شہید ہوگئے، 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 31 ہزار 45 فلسطینی شہید اور 72 ہزار 654 زخمی ہوچکے ہیں۔ حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں سے اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
اسرئیلی فوج نے رات گئے نصیرت کیمپ سمیت غزہ کے مختلف علاقوں پر بارود برسا کر خواتین اور بچوں سمیت 13 فلسطینیوں کو شہید کردیا، دوسری جانب غزہ میں 5 ماہ سے جاری جنگ کے خلاف دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک نومولود اور ایک خاتون غذائی قلت کے باعث انتقال کر گئے، جس کے بعد غذائی قلت سے مرنے والوں کی تعداد 25 ہو گئی ہے۔
رات گئے اسرائیلی فوج نے رفح میں رہائشی ٹاور تباہ کردیا، 24 گھنٹے میں مزید 82 فلسطینی مارے گئے۔
دوسری جانب حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے رمضان سے قبل اسرائیل کے اتحادیوں سے جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کردیا۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سربراہ نے بتایا کہ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بات چیت جاری ہے، اس کےعلاوہ کینیڈا اور سویڈن نے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی اونروا کی امداد دوبارہ بحال کردی۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 30 ہزار 960 فلسطینی شہید اور 72 ہزار 524 زخمی ہو چکے ہیں۔ حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
غزہ پر 5 ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں کیخلاف دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
امریکی شہر نیویارک میں لوگوں کی بڑی تعداد اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی، مظاہرین نے اسرائیل سے حملے روکنے اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
لندن میں بھی شہریوں نے فلسطین کے حق میں احتجاج، خواتین نے فلسطینی پرچم اور بینرز اٹھا کر اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔
فرانس کے شہر پیرس میں بھی اقوام عالم سے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کیاگیا۔
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں ریلی نکالی گئی، انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں امریکی سفارتخانے کے سامنے عوام نے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے دوران ’ریڈ لائن‘ عبور نہیں کرنا چاہیے، لیکن فوری طور پر اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کوئی ریڈ لائن نہیں ہے اور میں اسرائیل کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی ٹی وی چینل ایم ایس این بی سی کو ’متضاد‘ انٹرویو میں جوبائیڈن نے کہا کہ رفح شہر پر اسرائیلی حملہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے ان کی ’ریڈ لائن‘ ہے۔
تاہم انہوں نے فوری طور پر اپنے بیان سے پیچھے ہٹے ہوئے کہا کہ کوئی ’ریڈ لائن‘ نہیں ہے اور وہ کبھی بھی ’اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘
بائیڈن نے اسرائیل کے دفاع کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی ریڈ لائن نہیں ہے جہاں وہ ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے، بشمول آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم، جو اسرائیل کی حفاظت کرتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’حماس کو نشانہ بنانے کے لیے مزید فلسطینیوں کی ہلاکتیں نہیں ہو سکتیں، غزہ میں جنگ سےاسرائیلی وزیراعظم اپنےملک کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں،‘
عام شہریوں کی مزید اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بائیڈن نے نتن یاہو پر زور دیا کہ وہ رفح پر اس وقت تک کوئی بڑا حملہ نہ کریں جب تک اسرائیل بڑے پیمانے پر انخلا کا منصوبہ تیار نہیں کرتا۔
یاد رہے کہ غزہ کے 23 لاکھ فلسطینیوں میں سے نصف سے زیادہ لوگ رفح کے علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بائیڈن نے اسرائیل میں 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حماس کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے نمٹنے کے اور بھی طریقے ہیں’۔
انہوں نے یرغمالیوں کی رہائی اور امداد کی فراہمی میں آسانی کے لیے 6 ہفتے کی جنگ بندی کے لیے اپنے مطالبے پر بھی زور دیا۔
مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان سے پہلے بھی جنگ بندی سے متعلق سوال پر جوبائیڈن نے جواب دیا کہ ’میرے خیال میں یہ ممکن ہے، میں پوری کوشش کروں گا‘۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت کا سلسلہ نہ تھم سکا، اسرائیلی فوج نے 24 گھنٹے میں مزید 78 فلسطینیوں کو شہید کردیا جس کے بعد شہدا کی مجموعی تعداد 30 ہزار878 ہوگئی جبکہ 72 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق غزہ میں فضا سے گرائی جانے والی امداد کی زد میں آکر 5 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، رپورٹس کے مطابق پیراشوٹ نہ کھلنے کے باعث امدادی سامان نیچے کھڑے لوگوں پر آگرا۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ واقعے میں 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں، کچھ رپورٹس میں اس حادثے کا تعلق امریکی فضائی امداد سے جوڑا گیا ہے تاہم امریکی فوج نے واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فضا سے گرائی جانے والی امداد کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات سے آگاہ ہیں، ہم لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، تاہم کچھ رپورٹس کے برعکس یہ حادثہ امریکی فضائی امداد کا نتیجہ نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اتوار کو رمضان کے آغاز تک غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے ہونا مشکل نظر آ رہا ہے۔
سربراہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات کا اعادہ کیا۔
انہوں نے معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں 5 ماہ سے جاری حالات کو جہنم سے مشابہہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر تقریباً 31 ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، 72 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوچکے ہیں، ہزاروں لاپتا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت کے 406 مراکز پر حملے کیے جاچکے ہیں، 118 ہیلتھ ورکرز حراست میں ہیں، 3 میں سے صرف ایک ہسپتال جزوی طور پر فعال ہے ہے، کیا یہ (مظالم) کافی نہیں ہے؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے رمضان کے مہینے میں سوڈان میں فوری طور پر جنگ بندی کے لیے قرارداد منظور کی ہے، اس تناظر میں چین نے سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو فراموش نہ کرے۔
اقوام متحدہ میں چین کے نائب سفیر ڈائی بنگ نے کونسل سے کہا کہ سوڈان میں ماہ رمضان کے دوران جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ غزہ کے لوگ اب بھی بمباری کی زد میں ہیں، عالمی برادری کو فوری جنگ بندی کے لیے زور دینا چاہیے۔
دوسری جانب حماس نے دوٹوک الفاط میں واضح کردیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلا تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
پاکستان نے غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے ماہِ رمضان کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ غزہ میں شہریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہیں، غزہ کے متاثرین کو فوری امداد، طبی سہولتیں دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ہم غزہ میں ماہ صیام کے دوران فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی کے ساتھ مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینیوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کے لیے سوشل میڈیا پر تہنیتی پیغام بھیجا گیا، تاحال کابینہ نہیں بنی ہے، اس کے بعد خارجہ پالیسی وضع کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایوں سے تعلقات کا تعین نئی کابینہ یا وزیرخارجہ کریں گے، بھارت سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ برابری، عزت و احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا تدارک کرکے مسئلہ کشمیر حل کرے تو بات چیت شروع کی جاسکتی ہے، عالمی یوم خواتین پر مقبوضہ کشمیر کی بہادر خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جارہا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن پر پیش رفت ہورہی ہے، وفاقی کابینہ نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔
انہوں نے پریس بریفنگ کے دوران مزید بتایا کہ پاکستان کے اندر 80 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کی تعمیر ہوگی۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں میں 30 ہزار 717 فلسطینی شہید جبکہ 72 ہزار 156 زخمی ہوچکے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ کے علاقے رفح میں ممکنہ اسرائیلی فوجی کارروائی کے خطرناک نتائج ہوں گے۔
’عرب نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق جدہ میں منعقدہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے غیرمعمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ فیصل نے فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے نقل مکانی کی مخالفت پر سعودی عرب کا مؤقف دہرایا۔
او آئی سی کا یہ غیر معمولی اجلاس حماس اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر میں شروع ہونے والی جنگ پر بات چیت کے لیے منعقد کیا گیا۔
7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے جاری اسرائیل کے حملوں میں 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
عالمی سطح پر اسرائیلی حملوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کچھ ممالک کے مؤقف اور تباہی کی شدت کو سمجھنے میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، علاوہ ازیں ہم نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر بہت سے ممالک کو آمادگی کا اظہار کرتے سنا۔
عرب امن اقدام کے تحت فلسطینی ریاست کا قیام کئی عرب اور مسلم اکثریتی ریاستوں کا طویل عرصے سے مؤقف رہا ہے، یہ ریاست 1967 والی سرحدوں کے مطابق ہوگی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کی تشکیل کی بدولت وہ اپنے حقوق حاصل کر سکیں گے، تحفظ کے ساتھ رہ سکیں گے اور اپنی منزل کا خود تعین کر سکیں گے۔
سعودی وزیر خارجہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کی حمایت پر بھی زور دیا اور ادارے کو تحلیل کرنے کی کوششوں کے خلاف خبردار کیا، انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے غزہ میں شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب ’یو این آر ڈبلیو اے‘ کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا اور تمام حامیوں پر زور دیتا ہے کہ وہ محصور غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے انسانی ہمدردی کے مشن میں اپنا معاون کردار ادا کریں۔
انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے اِس ادارے کے لیے فنڈنگ معطل کرنے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لیں۔
واضح رہے کہ متعدد ممالک نے یو این آر ڈبلیو اے کے لیے مالی امداد اس وقت ختم کر دی تھی جب اسرائیل نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے ملازمین کا حماس سے تعلق ہے اور وہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے۔
غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی بمباری جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 124 فلسطینی شہید کردیے۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق خان یونس میں اسرائیلی دہشتگردی کے نتیجے میں 8 فلسطینی شہید ہوگئے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی سفاکیت کے نتیجے میں شہدا کی مجموعی تعداد 30 ہزار 534 ہوگئی جبکہ 72 ہزار افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
ادھر مغربی کنارے میں بھی صیہونی فوج کی کارروائیاں نہ تھم سکیں، جینن، قلقلیا سمیت مختلف علاقوں میں فائرنگ سے کئی فلسطینی زخمی ہوگئے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے غزہ کی صورتِ حال کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں لوگوں کے پاس کھانے، پینے کو کچھ نہیں، غزہ میں امداد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
نائب امریکی صدر کا اسرائیل کے بجائے حماس سےجنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا اسرائیل کو غزہ میں امداد کی ترسیل پر زور دیا۔
غیر ملکی نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکی نائب صدر کمالا ہیرس نے دو ٹوک الفاظ میں اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں ’انسانی تباہی‘ کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا۔
کمالا ہیریس نے شہر سیلما میں سامنے خطاب کرتے ہوئے کم از کم 6 ہفتے تک غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور حماس پر زور دیا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ قبول کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’غزہ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، حالات سنگین ہیں، اسرائیلی حکومت کو غزہ میں امداد کی ترسیل کے لیے مزید اقدامات کرنا چاہیے، اسرائیل اس حوالے سے بہانے بنانے سے گریز کرے۔‘
کمالا ہیرس نے کہا کہ اسرائیل کو نئی سرحدی گزرگاہیں کھولنی ہوں گی، امداد کی ترسیل پر غیر ضروری پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور بنیادی خدمات کی بحالی کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ زیادہ خوراک، پانی اور ایندھن لوگوں تک پہنچ سکے۔’
یاد رہے کہ 2 مارچ کو غزہ میں غذائی قلت سے ایک درجن سے زائد بچوں کی اموات کے بعد امریکا نے فضا سے امداد گرانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق اسرائیل نے 3 مارچ کے روز قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کا بائیکاٹ کیا جب حماس نے زندہ یرغمالیوں کی مکمل فہرست دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
کمالا ہیرس نے کہا کہ ’حماس کا دعوی ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتی ہے، ٹھیک ہے، پھر انہیں معاہدہ قبول کرنا ہوگا، یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ سے ملا دیں اور غزہ کے لوگوں کو امدادفراہم کریں۔
غزہ کے شہر رفع میں مسلسل اسرائیلی بمباری سے جڑواں بچوں سمیت 25 فلسطینی مارے گئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی خاتون اپنی شادی کے 11 سال بعد ماں بنی تھیں، ان کے ہاں 4 ماہ قبل جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی، تاہم رفع میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں دونوں بچے شہید ہوگئے۔
خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران رفع میں نور شمس پناہ گزین کیمپ میں جھڑپوں، فائرنگ اور بمباری ہوئی۔
اس کےعلاوہ اسرائیلی فوج کی امداد کے منتظر فلسطینیوں پرایک بار پھر فائرنگ کردی، 24گھنٹے میں92 فلسطینی شہید ہوگئے۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 30 ہزار 410 فلسطینی شہید اور 71 ہزار 700 زخمی ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں سے اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
غزہ کے علاقے خان یونس میں حماس نے جھڑپوں میں مزید 3 اسرائیلی فوجی ہلاک کردیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حماس نے الزیتون میں صیہونی ٹینکوں پر حملوں کی نئی ویڈیو بھی جاری کردی۔
2 فروری کو جنوبی غزہ کی پٹی میں خان یونس میں ایک عمارت میں ہونے والے دھماکے میں 3 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 14 زخمی ہو گئے، جن میں سے 5 کی حالت نازک ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے بھی 3 فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کردی، زمینی کارروائی میں اب تک 245 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکےہیں۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب فوجی عمارت کا جائزہ لے رہے تھےاس دوران حماس نے 2 دھماکا خیز مواد کے ذریعے عمارت کو نشانہ بنایا ۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 30 ہزار 320 فلسطینی شہید اور 71 ہزار 533 زخمی ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کے حماس کے حملوں سے اسرائیل میں مرنے والوں کی نظر ثانی شدہ تعداد 1,139 ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی اہلیہ جل بائیڈن کو فلسطین کی حامی خاتون کے نعروں کا سامنا کرنا پڑگیا، ٹوکسن میں تقریب سے خطاب کے دوران خاتون نے کھڑے ہوکر فلسطین کے حق آواز اٹھائی۔
خاتون نے غزہ میں قتل عام فوری روکنے اور اسرائیل کو فنڈنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا، بعدازاں جل بائیڈن جلد ہی اپنی تقریر ختم کرکے موقع سے روانہ ہوگئیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی اہلیہ جل بائیڈن کو فلسطین کی حامی خاتون کا سامنا کرنا پڑگیا ۔ ٹوکسن میں تقریب سے خطاب کے دوران خاتون نے کھڑے ہوکر فلسطین کے حق آواز اٹھائی ۔۔ غزہ میں قتل عام فوری روکنے اور اسرائیل کو فنڈنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔
رفح میں رات گئے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 25 افراد مارے گئے،جن بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر اسرائیلی فضائی حملے بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم 11 فلسطینی شہید ہوگئے۔
رفح غزہ کا ایسا شہر ہے جہاں ہزاروں لوگ اسرائیل کے تباہ کن حملے سے پناہ گاہ تلاش کر رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ رفح کے علاقے تل السلطان میں ایک ہسپتال کے ساتھ ہونے والے اس حملے میں مزید 50 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
واقعے میں شہید ہونے والوں میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔
عینی شاہد نے شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ ’خیموں پر براہ راست بمباری کی گئی جہاں لوگ پناہ لے رہے ہیں، بمباری نے ہسپتال کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا جہاں میں اور میرا دوست بیٹھے تھے لیکن یہ ایک معجزہ ہے کہ ہمارے جان بچ گئی۔‘
رہائشیوں اور طبی ماہرین نے بتایا کہ غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے بیت حانون میں کھیتوں میں خوراک کی تلاش میں 3 افراد اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔
اسرائیلی فوج نے فوری طور پر تبصرہ نہیں دیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ تین دنوں میں شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال میں پانی کی کمی اور غذائی قلت سے 13 بچے مارے جاچکے ہیں۔
ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اموات میں اضافے کا خطرہ ہے، ڈاکٹر عماد دردونہ نے کہا کہ ’جب ایک بچے کو دن میں تین وقت کھانا چاہیے اور وہ صرف ایک ہی کھانا کھا سکتا ہے، تو ظاہر ہے کہ بچے غذائی قلت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں‘۔
غزہ میں غذائی قلت سے ایک درجن سے زائد بچوں کی اموات کے بعد امریکا نے فضا سے امداد گرانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی ریلیف آپریشن کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر جو بائیڈن نے چند گھنٹے قبل ہی غزہ میں فضا سے امداد گرانے کا اعلان کیا تھا اور اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے مزید امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔
تقریباً پانچ ماہ سے جاری اس جنگ میں اب تک 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی اور لاپتا ہو چکے ہیں اور اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ کو روکنے کے لیے مذاکراتی عمل بھی جاری ہے۔
امریکی فوجی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے غزہ میں انسانی بنیاد پر فضا سے امداد گرانے کے عمل کا آغاز کیا جس میں امریکی فضائیہ کے تین سی۔130 طیاروں نے حصہ لیا تاکہ اس تنازع سے متاثرہ شہریوں کو کچھ ریلیف مہیا کیا جا سکے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ آپریشن اردن کی مدد سے انجام دیا گیا جس میں طیاروں نے غزہ کی ساحلی پٹی کے قریب 38ہزار سے زائد کھانے کے پیکٹ گرائے۔
اس سلسلے میں اردن نے سب سے پہلے گزشتہ سال نومبر میں فضا سے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد سے کئی مشنز یہ کام انجام دے چکے ہیں جہاں اس امدادی کارروائی میں اسے برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز سمیت کچھ یورپی ممالک کا تعاون حاصل رہا جبکہ مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی فضا سے امداد پھینکنے پر مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
اے ایف پی ٹی وی کی تصاویر میں غزہ میں لوگوں کو پیدل اور سائیکل پر سوار اندھا دھند امدادی سامان تک پہنچنے کے لیے سرگرداں دیکھا جا سکتاہے۔
غزہ سٹی کے علاقے زیتون سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ ہشام ابو عید نے بتایا کہ انہیں امدادی سامان میں آٹے کے دو تھیلے ملے جس میں سے ایک انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ہر کوئی قحط کا شکار ہے، غزہ کو ملنے والی امداد نایاب ہے اور یہ یہاں کے لوگوں کے لیے ناکافی ہے، یہ قحط لوگوں کو مار رہا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے اب تک کم از کم 13 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
امریکا کی جانب سے فضا سے امداد گرائے جانے سے چند دن قبل ہی اسرائیل نے بربریت کی نئی مثال رقم کرتے ہوئے امداد کے حصول کے لیے امدادی ٹرکوں کے قریب جمع عوام پر اندھادھند فائرنگ کی تھی جس سے 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس واقعے میں کم از کم 116 افراد شہید اور 750 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جہاں اس واقعے کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ خوراک کی اشیا تک رسائی کی کوشش کرنے والے شہریوں پر فائرنگ بلاجواز ہے اور اس المناک واقعے کی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ زیادہ انسانی امداد غزہ تک پہنچانا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے جمعہ کے روز غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال میں امدادی واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے کچھ کی عیادت کی اور بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو دیکھا جن کو گولیاں لگی تھیں۔
ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ ٹیم کے دورے کے دوران ہسپتال میں واقعے میں جاں بحق 70 افراد اور 200 کے قریب زخمی موجود تھے۔ غزہ شہر کے کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نے بتایا کہ ہسپتال میں لائے جانے والے تمام افراد گولیاں لگنے سے شہید ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لارک نے جمعہ کو کہا کہ حالات تبدیل نہ ہوئے تو غزہ میں قحط تقریباً ناگزیر ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برطانوی وزیراعظم کے حالیہ بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جس میں رشی سوناک نے فلسطینیوں کے احتجاج کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ یکم مارچ کو رشی سوناک نے برطانیہ میں فلسطین کےحق میں احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ برطانیہ میں مسلسل احتجاج جمہوریت کےلئےخطرہ ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ فلسطینیوں کےحق میں مسلسل احتجاج جمہوریت کےلئےخطرہ ہے، حماس کےحق میں بولنے والوں سے لڑنے کا وقت آگیا ہے، ملک میں کسی تشدد اور دھمکیوں کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں شدت پسندوں کےخلاف کریک ڈاؤن کیاجائےگا۔
رشی سوناک کے اس بیان کے بعد انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کے خلاف لوگوں کے احتجاج کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کر ررہے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کے ڈائریکٹر الیاس ناگدی نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کو انتہا پسندی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’برطانیہ کے شہری غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ناقابل برداشت حد تک بڑھ رہی ہے، برطانوی حکومت مصائب کو روکنے کے لیے فوری جنگ بندی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔‘
الیاس ناگدی نے کہا کہ یہ ’انتہائی تشویشناک‘ ہے کہ حکومت مظاہروں پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والی مسجد کے ملبے کے درمیان فلسطینیوں کی جانب سے جمعہ کی نماز ادا کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔
گزشتہ روز (یکم مارچ کو) بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں نے الفاروق مسجد کے ملبے کے سامنے جمعہ کی نماز ادا کی، یہ مسجد جنوبی غزہ کے شہر رفح میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہو گئی تھی۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 30 ہزار 228 افراد شہید اور 71 ہزار 377 زخمی ہو چکے ہیں، 7 اکتوبر کے حملوں سے اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
برطانیہ میں ضمنی الیکشن میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدان جارج گیلووے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے جو حماس-اسرائیل جنگ پر غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 69 سالہ جارج گیلووے پہلی بار 1987 میں رکن پارلیمنٹ بنے تھے اور 2015 کے بعد اب وہ پہلی بار انگلینڈ کے شمال میں واقع روچڈیل کی سیٹ پر تقریباً 6 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت کر ہاؤس آف کامنز میں واپس آئیں گے۔
روچڈیل میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 39.7 فیصد رہا جس میں سے 18.3 فیصد ووٹ جارج گیلووے کے حق میں پڑے۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی نے اپنے امیدوار اظہر علی کو اس وقت انتخابات سے دستبردار کردیا تھا جب انہوں نے یہ سازشی تھیوری گھڑی تھی کہ حماس کو 7 اکتوبر کو حملے کی اجازت خود اسرائیل نے دی تھی۔
برطانیہ کی ورکرز پارٹی کے رہنما جارج گیلووے نے روچڈیل میں اپنی انتخابی مہم کا مرکز غزہ کے تنازع کو بنایا، روچڈیل میں 30 فیصد مسلم آبادی مقیم ہے۔
اپنی کامیابی کے بعد تقریر کے دوران لیبر پارٹی کے رہنما سر کئیر اسٹامر پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جارج گیلووے نے کہا کہ میری یہ فتح غزہ کے لیے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے غزہ کی پٹی میں مقبوضہ فلسطین میں ہونے والی تباہی کو فروغ دینے، اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کی پشت پناہی کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، اس کی قیمت ادا کی ہے اور آپ اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کریں گے۔
’گارجیئس جارج‘ کے نام سے مشہور جارج گیلووے کا سیاسی کیرئیر طویل اور متنوع رہا ہے، جس میں انہوں نے لیبر پارٹی سمیت کئی جماعتوں کی نمائندگی کی ہے۔
انہوں نے 1990 کی دہائی میں اس وقت تنازع کھڑا کر دیا تھا جب وہ اس وقت کے عراقی رہنما صدام حسین سے ملنے گئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ سر! میں آپ کی ہمت، آپ کی طاقت، آپ کی غیرت مندی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
جارج گیلووے نے 2005 میں بین الاقوامی توجہ حاصل کی جب انہیں امریکی سینیٹ میں عراق کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، اس سے قبل انہیں عراق جنگ کے بارے میں اپنے مؤقف پر لیبر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے برطانیہ میں فلسطین کےحق میں احتجاج کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ برطانیہ میں مسلسل احتجاج جمہوریت کےلئےخطرہ ہے۔
ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب کچھ روز قبل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزبیان دینے اور معافی نہ مانگنے پر برطانوی ممبرپارلیمنٹ لی اینڈرسن کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا۔
لی اینڈرسن نے کہا تھا کہ مسلمانوں نے میئر لندن صادق خان کے ذریعے لندن پر قبضہ کر لیا ہے، بعدازاں صادق خان نے برطانوی وزیراعظم اور ان کی کابینہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رشی سونک کی خاموشی متنازع بیان کےدفاع کے مترادف ہے۔
لی اینڈرسن کے نفرت انگیز بیان پر رشی سوناک نے کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا تاہم گزشتہ روز انہوں نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف اور ارکان پارلیمنٹ کے تحفظ سے متعلق گفتگو کی۔
انہوں نے برطانیہ میں احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں پر الزام عائد کیا کہ ’برطانیہ میں انتہا پسند گروپ ہمیں الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کےحق میں مسلسل احتجاج جمہوریت کےلئےخطرہ ہے، حماس کےحق میں بولنے والوں سے لڑنے کا وقت آگیا ہے، ملک میں کسی تشدد اور دھمکیوں کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ برطانیہ میں شدت پسندوں کےخلاف کریک ڈاؤن کیاجائےگا، احتجاج میں نفرت پھیلانے والوں کےویزے منسوخ کردیےجائیں گے۔
7 اکتوبر 2023کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اس وقت قحط کی صورتحال ہے، خوراک کی قلت اور بھوک کے باعث بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادوشمار غزہ کی وزارت صحت جاری کرتی ہے جو حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے، وزارت کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 30 ہزار 35 افراد شہید اور 70 ہزار 457 زخمی ہو چکے ہیں۔
جبکہ 7 اکتوبر کے حملوں سے اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔
اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز شمالی غزہ میں امدادی ٹرکوں کے طرف امداد حاصل کرنے کے لیے جانے والے کم از کم 112 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں جبکہ 760 زخمی ہیں۔
غزہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی سڑک پر آنے والے امدادی ٹرکوں کو ہجوم نے گھیر لیا تھا اور اس وقت وہاں اسرائیلی ٹینک بھی موجود تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہجوم کو خبردار کرنے کے لیے فائرنگ کی لیکن قافلے کو نشانہ نہیں بنایا۔ کچھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے براہِ راست ان پر فائرنگ کی۔
حماس نے اسرائیل کے ساتھ تمام مذاکرات روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی حملہ جنگی جرم قرار دے دیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ امداد کے منتظر فلسطینیوں پر حملوں کی تحقیقات جاری ہیں اور اس حوالے سے جواب کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں گے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے غزہ میں شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کردیا ۔ ْ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے رفح پر زمینی حملے کی دھمکی دی ہے، جہاں تقریباً 1.5 ملین لوگ آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنگ سے بے گھر ہوکر یہاں پناہ لے رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’خوفناک تشدد اور مصائب‘ کو ختم ہونا چاہیے۔
امریکا نے اسرائیل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ماہِ رمضان کے دوران مسلمانوں کو یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں عبادت کرنے کی اجازت دے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کے سوالوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسرائیل پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ ماضی کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے رمضان کے دوران پرامن عبادت گزاروں کو مسجد تک رسائی کی اجازت دے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ نہ صرف اخلاقی طور پر درست اقدام ہے، اور یہ صرف لوگوں کو مذہبی آزادی دینے کے بارے میں نہیں ہے جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کا حق ہے بلکہ یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے بھی اہم ہے۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’مغربی کنارے میں کشیدگی کو بڑھانا اسرائیل کے سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
اسرائیل اس بات پر غور کر رہا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران یروشلم میں عبادت کا انتظام کیسے کیا جائے۔
دوسری جانب حماس نے رمضان المبارک کے آغاز کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں سے مسجد اقصیٰ میں جمع ہونے کی درخواست کی ہے۔
حماس کے چیف اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ’ہم یروشلم، مغربی کنارے میں اپنے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے کے پہلے دن سے اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں اور ناکہ بندی کو ختم کرنے میں مدد کریں۔ ’
گزشتہ ہفتے اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے کہا تھا کہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو رمضان کے دوران نماز ادا کرنے کے لیے یروشلم میں داخلے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم خطرہ مول نہیں لے سکتے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ہم غزہ میں خواتین اور بچوں کو یرغمال نہیں بنا سکتے اور حماس کو ٹیمپل ماؤنٹ پر جشن منانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔’
یاد رہےکہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری کے دوران کم از کم 29 ہزار 878 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ رمضان کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، اس صورت میں سعودی عرب اور دیگر ممالک اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جوبائیڈن نے ایک امریکی ٹی وی شو میں شرکت کی جہاں میزبان نے سوال پوچھا کہ غزہ سے خوفناک فوٹیجز منظر عام پر آرہی ہیں، کیا وہاں کے رہنے والے لوگوں کے محفوظ مستقبل کے لیے کوئی اقدامات کیے جارہے ہیں؟’
جس پر جوبائیڈن نے جواب دیا کہ ’سب سے پہلے تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہیے، رمضان قریب ہے اور اسرائیلیوں نے اس ماہ کے دوران بمباری نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے اس سے ہمیں یرغمالیوں کو بحفاظت باہر نکالنے کا موقع ملے گا۔‘
جوبائیڈن نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی سے ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنے کا موقع ملے گا جس کے لیے سعودی عرب، اردن، مصر سمیت دیگر ملک اسرائیل کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہےکہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری کے دوران کم از کم 29 ہزار 878 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امکان مشرق وسطیٰ کی سفارتی صورتحال میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔