حکومت کا وفاقی وزارتوں میں ماہرین تعینات کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2019
حکومت نے 15 وفاقی وزارتوں کو ترجیح دی ہے جہاں پہلے مرحلے میں تکنیکی مشیر تعینات کیےجائیں گے —فائل فوٹو: انسٹاگرام
حکومت نے 15 وفاقی وزارتوں کو ترجیح دی ہے جہاں پہلے مرحلے میں تکنیکی مشیر تعینات کیےجائیں گے —فائل فوٹو: انسٹاگرام

اسلام آباد: حکومت نے امریکی نظامِ حکومت میں انڈر سیکریٹری کی طرز پر وفاقی وزارتوں کے اعلیٰ عہدوں پر بہترین قابلیت کے حامل پیشہ ور افراد کو تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ان عہدیداروں کو ’تکنیکی مشیر‘ کا نام دیا جائے گا جن کی تنخواہ مخصوص مدت کے لیے نجی شعبے میں مارکیٹ کی شرائط کے مطابق ہوگی۔

پالیسی تجاویز اور ماہرانہ رائے دینے کے لیے انہیں وفاقی سیکریٹریز سے اونچے اور وزرا کے ماتحت عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔

اس حوالے سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ان ماہرین کو منیجمنٹ پے (ایم پی) یا اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس) پر ملازمت دی جائے گی لیکن عملی طور پر وہ گریڈ 23 کے افسران ہوں گے جبکہ وفاقی سیکریٹری کا گریڈ 22 ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عشرت حسین کی 8 سرکاری محکمے ختم کرنے کی تصدیق

ایک سینئر عہدیدار کے مطابق یہ امریکی انتظامیہ کی طرح ہوگا جہاں صدر حکومتی ویژن اور اہداف کے مطابق کام کرنے کے لیے اپنے تکنیکی ماہرین پر مشتمل ٹیم لاتے ہیں اور وہ ماہرین زیادہ تر صدارتی مدت تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اراکین کو یقین ہے کہ سینئر بیوروکریسی کی موجودہ کھیپ حکومت کے افعال صحیح طریقے سے چلانے میں اہم ترین رکاوٹ ہے۔

مزاحمت کی توقع

دوسری جانب مجوزہ حکومتی منصوبے پر بیوروکریسی کی جانب سے مزاحمت کی توقع بھی کی جارہی ہے کیوں کہ کچھ اعلیٰ افسران ذاتی طور پر ’نوجوان سپر بیوروکریٹس‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قانونی طریقہ کار اور رول آف بزنس کے تحت اس قسم کے عہدوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

اس سلسلے میں جب وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 15 وفاقی وزارتوں کو ترجیح دی ہے جہاں پہلے مرحلے میں تکنیکی مشیر تعینات کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: شفافیت کیلئے قائم سرکاری ادارے میں 32غیرقانونی بھرتیوں کا انکشاف

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ان مشیران کا عہدہ سیکریٹریز سے بالا اور وفاقی وزیر سے کم ہوگا۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ بھی بتایا کہ منیجمنٹ پوزیشن کے پے اسکیلز (ایم پی-1) کو بہتر بنایا جارہا ہے تاکہ بہترین ماہرین مائل ہوسکیں یوں ایک ایم پی-1 مشیر 7 لاکھ روپے سے زائد رقم حاصل کرسکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت وزارت تعلیم میں بہترین قابلیت کے حامل ایک اعلیٰ سطح کے تکنیکی ماہر کو باقاعدہ طریقہ کار کے ذریعے تعینات کرچکی ہے اور یہی کام 15 منتخب وزارتوں میں کیا جائے گا۔

اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو بھجوائی گئی سمری میں جن 15 وزارتوں کی نشاندہی کی گئی اس میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، خزانہ، توانائی، پیٹرولیم، آبی وسائل، تجارت، ہوا بازی، تحفظ خوراک، صنعت و پیداوار، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونکیشن، ماحولیاتی تبدیلی، بحری امور، ٹیکسٹائل صنعت اور قومی صحت سروس، ریگولیشن اور کوآرڈنیشن شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا فیصلہ

ان عہدوں پر تعیناتیاں ہر عہدے کی مخصوص شرائط کے تحت ان کا متعلقہ محکمہ یا وزارت کرے گی، کانٹریکٹ کی بنیاد پر ہونے والی ان تعیناتیوں کے لیے وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی منیجمنٹ سروس سے مشاورت بھی کی جائے گی۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیر اعظم کو بتایا کہ محکمہ خزانہ نے اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس-1،2،3) تیار کرلیے ہیں جبکہ ایم پی-1، 2 اور 3 کو بھی اپ گریڈ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان تکنیکی ماہرین کو مارکیٹ سے بھرتی کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک عہدیدار نے کہا کہ وزارت خزانہ نے مسابقتی انتخاب کے عمل ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے لیے علیحدہ سے پیشہ وارانہ قابلیت کے حامل افراد کے ایک گروہ کی خدمات حاصل کی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ڈھائی سے 3 لاکھ روپے ہوگی۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت اور خودمختار اداروں میں ایک لاکھ 70 ہزار آسامیاں خالی

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اعلیٰ افسران کا گروپ وزارتوں میں تکنیکی مشیران کی تعیناتی کو چیلنج کرنے والا تھا اور اس بات کا خواہشمند تھا کہ حکام کی درجہ بندی میں ایک اور درجے کا اضافہ کرنے کے بجائے آزادانہ ماہرین کی رائے لینے کے لیے تکنیکی مشیر کا ایک حلقہ قائم کیا جائے۔

اس ضمن میں ایک سابق سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک انقلابی تصور ہے لیکن اس کے لیے حکومتی معاملات کے اصولوں میں ترامیم کرنی پڑیں گی اور تکنیکی مشیر اور سیکریٹری میں اختیارات کی جنگ چلتی رہے گی‘۔


یہ خبر 13 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں