شفافیت کیلئے قائم سرکاری ادارے میں 32غیرقانونی بھرتیوں کا انکشاف

19 اکتوبر 2019
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان 32تقرریوں پر سوالات اٹھائے— تصویر بشکریہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان 32تقرریوں پر سوالات اٹھائے— تصویر بشکریہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان

حکومتی اداروں اور وزارتوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قائم کردہ ادارہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی(پی پی آر اے) خود ہی غیرشفافیت کی نظر ہو گیا اور ادارے پر غیرشفاف اور غیرقانونی طریقے سے 32تقرریوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے آڈٹ کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ان تقرریوں پر سوالات اٹھائے۔

مزید پڑھیں: غیر قانونی بھرتیوں کا کیس:راجا پرویز اشرف کے قابل ضمانت وارنٹ جاری

یکم جنوری 1992 کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ میمورنڈم میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی وزارت، ڈویژن، محکمہ اور آرگنائزیشن آسامیوں کی تشہیر کیے گئے بغیر کسی بھی عہدے کے لیے کوئی درخواست موصول نہیں کرے گا۔

آڈٹ میں اعتراض اٹھایا گیا کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی مینجمنٹ نے محکمہ جاتی طریقہ کار کو مدنظر رکھے بغیر ہی آسامیوں کا اشتہار دیے بغیر ملازمین کو بھرتی کر لیا۔

لہٰذا اشتہار دیے بغیر کسی بھی اسٹاف کی تقرری خلاف ضابطہ اور ادارہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں۔

آڈٹ کے اعتراض کے بعد ایک عام شہری بریگیڈیئر ریٹائرڈ سلیمان احمد خان نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو ان غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف شکایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی بھرتیوں کا الزام: پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر گرفتار

شکایت گزار نے موقف اپنایا کہ جن 32 افراد کو غیرقانونی طور پر بھرتی کیا گیا ہے، چند مواقعوں پر سینئر آفیشلز نے اپنے ذاتی ملازمین کو پی پی آر اے کے نچلے درجوں پر بھرتی کیا اور ان عہدوں کے اخبارات میں اشتہار بھی نہیں دیے گئے۔

درخواست گزار نے کہا کہ ان 32 افراد کی بھرتی قانون کی خلاف ورزی، اختیارات کا غلط استعمال کے ساتھ ساتھ قانونی ضابطوں کو پورا کیے گئے سرکاری دفتر کا غلط استعمال اور انہیں غصب کرنا ہے۔

جن 32 افراد کی بھرتی پر اعتراض اٹھایا گیا ان میں تین ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے بھی شامل ہیں جن پر علی تیمور، یاسر شمیم خان اور رضوان محمود خان کو ابتدائی طور پر عارضی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اور اس موقع پر بھی اصولی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔

ان میں سے اکثر بھرتیاں مبینہ طور پر سابق منیجنگ ڈائریکٹر پی پی آر اے محمد خالد جاوید کی ہدایات پر کی گئیں اور حتیٰ کہ نچلے درجوں پر اپنے ذاتی ملازمین کو بھی بھرتی کیا۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: غیر حاضری، جعلی ڈگری پر 104 اساتذہ برطرف

پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک سینئر آفیشل نے ڈان کو بتایا کہ ابتدائی طور پر ان افراد کو عارضی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا تھا البتہ سید خورشید احمد شاہ کی زیر سربراہی قائم کابینہ کی زیلی کمیٹی نے ان افراد کو مستقل بنیادوں پر نوکری دے دی تھی حالانکہ اس وقت ادارے میں کوئی بھی ایسی مستقل نوکری کی آسامی خالی نہیں کہ جس پر جزوقتی ملازمین کو بھرتی کیا جاتا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آڈٹ جنرل نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پی پی آر اے نے فنانس ڈویژن سے منظوری لیے بغیر ہی ان افراد کو نوکریوں پر مستقل کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں