پی آئی سی ہنگامہ آرائی: ڈاکٹر عرفان کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2019
پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی مبینہ طور پر ڈاکٹر عرفان کی متنازع ویڈیو کے بعد پیش آیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی مبینہ طور پر ڈاکٹر عرفان کی متنازع ویڈیو کے بعد پیش آیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

لاہور کی سیشن عدالت نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں وکلا کی ہنگامہ آرائی سے قبل متنازع تقریر کرنے والے ڈاکٹر عرفان کے خلاف دائر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

حیدر زمان ایڈووکیٹ کی مدعیت میں درج درخواست پر ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ نے سماعت کی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل سے ڈاکٹر عرفان کی تقریر کی ویڈیو سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

سیشن عدالت نے تقریر کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والے اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔

درخواست گزار حیدر زمان ایڈووکیٹ نے مقدمے میں ڈائریکٹر ایف آئی اے، ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم سرکل اور ڈاکٹر عرفان کو فریق بنایا ہے۔

مزید پڑھیں:پی آئی سی حملہ: سپریم کورٹ بار نے وکلا پر 'غیر قانونی الزامات' مسترد کردیے

حیدر زمان ایڈووکیٹ نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ وکلا پر تشدد کے معاملے پر پی آئی سی کے ڈاکٹر عرفان کی جانب سے وکلا کی تذلیل کی گئی اور انہوں نے ملک دشمن عناصر کا آلہ کار بن کر وکلا کے خلاف تقریر کی۔

انہوں نے کہا کہ وکلا کو اس ویڈیو بیان کے ذریعے سوچی سمجھی سازش کے تحت اکسایا گیا اور ڈاکٹر عرفان کی تقریر انسانی جانوں کے ضیاع اور توڑ پھوڑ کا سبب بنی۔

درخواست گزار کے مطابق وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین معاملات طے پا رہے تھے جو ملک دشمن عناصر کے مفادات کے خلاف تھے۔

عدالت سے ڈاکٹر عرفان کے خلاف مقدمے کی سماعت کی استدعا کرتے ہوئے حیدر زمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے کو ڈاکٹر عرفان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی مگر داد رسی نہیں ہوئی، اس لیے عدالت ڈاکٹر عرفان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔

یہ بھی پڑھیں:پی آئی سی حملہ: 'صرف وزیراعظم کا بھانجا ہونے کی وجہ سے میڈیا ٹرائل کیا گیا'

یاد رہے کہ 11 دسمبر 2019 کو لاہور میں وکلا نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے پی آئی سی کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی تھی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب نے پی آئی سی واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی سمیت 250 سے زائد وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کردی گئی تھیں اور وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کردی گئی تھی۔

پی آئی سی پر حملے کے بعد پولیس نے 81 وکلا کو گرفتار کرلیا تھا، لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 46 وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں:وکلا کی ’دھمکیاں‘، سیکیورٹی کے بغیر او پی ڈی نہیں کھولیں گے، ڈاکٹرز

ہنگامہ آرائی کرنے والے وکیل سوشل میڈیا میں وائرل ایک ویڈیو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پائے گئے تھا جس میں ڈاکٹر عرفان اور دیگر ڈاکٹر مبینہ طور پر وکلا کا مذاق اڑا رہے تھے۔

پی آئی سی کو توڑ پھوڑ کے بعد بند کردیا گیا تھا اور ڈاکٹروں نے خبردار کیا تھا کہ جب تک ہسپتالوں میں سیکیورٹی کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا تب تک او پی ڈی نہیں کھولی جائیں گی۔

دوسری جانب سے وکلا نے ملک بھر میں احتجاج کی کال دی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ گرفتار کیے گئے وکلا کو ’فوری رہا‘ کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں