بے روزگار ملزمان تاوان کی رقم ذاتی اخراجات کے لیے طلب کررہے تھے، پولیس

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2019
21 دسمبر کو لاپتہ ہونے والے بچے کے ملزمان کے بارے میں پولیس نے تفصیلات جاری کردیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
21 دسمبر کو لاپتہ ہونے والے بچے کے ملزمان کے بارے میں پولیس نے تفصیلات جاری کردیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

اسلام آباد: پولیس نے 21 دسمبر کو لاپتہ ہوکر 24 دسمبر کو ملنے والے 5 سالہ بچے کے کیس میں گرفتار 4 مبینہ اغواکاروں کی شناخت اور ان کے مقاصد کے حوالے سے پولیس نے تفصیلات بتادیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران نے ڈان کو بتایا کہ تمام مشتبہ ملزمان سرکاری حکام کے بچے ہیں جن میں سے 3 کی عمر 21 سے 22 کے درمیان ہے جبکہ چوتھے کی عمر 26 سال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'ملزمان میں جو سب سے بڑا ہے وہ شادی شدہ ہے، وہ ایک ریٹائرڈ صوبیدار کا بیٹا ہے جو اب پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ملزم نے سعودی عرب میں 2015 سے 2018 کے دوران بطور باورچی کام بھی کیا ہے اور گزشتہ سال پاکستان لوٹا تھا۔

مزید پڑھیں: دعا منگی کے اغوا کے پیچھے عسکریت پسند گروہ کے ہونے کا شبہ

پولیس نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ ملزم نشے کا عادی تھا اور اس ہی نے دیگر ملزمان کو بھی نشے کی عادت میں مبتلا کیا تھا۔

ایک اور ملزم متاثرہ بچے کا رشتے دار اور پڑوسی تھا جس نے حال ہی میں اسلام آباد کے ایک معروف اسکول سے اے لیولز کی تعلیم مکمل کی تھی اور اس کے والد آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔

تیسرا ملزم زیر تعلیم تھا جو 17 گریڈ کے سرکاری افسر کا بیٹا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ تمام چاروں ملزمان بے روزگار تھے اور بچے کو اغوا کرکے اس سے ملنے والی رقم کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

چوتھا ملزم اسلام آباد پولیس حکام کا بیٹا تھا جو ایک لڑکی کو بھگا کر شادی کرنا چاہتا تھا جس کا منصوبہ اس نے اپنے دوستوں کو بھی بتا رکھا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ملزمان میں سب سے بڑے ملزم نے کسی کو اغوا کرکے تاوان طلب کرنے کا مشورہ دیا تھا جس پر تمام ملزمان 5 سالہ بچے کو اغوا کرکے 25 لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے لیے راضی ہوگئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے 2 ماہ قبل بچے کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی جس کے لیے ایک ملزم نے اس ہی علاقے میں 10 ہزار روہے مہینے پر ایک گھر بھی کرائے پر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نامور اداکارہ زیبا شہناز کا بھتیجا لندن میں اغوا کے بعد قتل

پولیس نے بتایا کہ ملزم نے مالک مکان کو ایک ہزار روپے دیے تھے اور آئندہ ماہ بقیہ رقم دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم ان کے درمیان کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

پولیس افسر کے مطابق بچے کا رشتہ دار مبینہ طور پر اسے اغوا کرکے اس گھر میں لانے کا ذمہ دار تھا جبکہ سب سے زیادہ عمر والا ملزم اس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار تھا۔

ایک اور ملزم نے سم کارڈز کا انتظام کیا جس کے ذریعے وہ آپس میں رابطہ کرتے تھے جس کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرڈ سموں کا بھی انتظام کیا گیا جس سے تاوان کی رقم کے لیے کال کرنا تھا۔

افسر کا کہنا تھا کہ پولیس نے ابتدائی طور پر ایک ملزم کو حراست میں لیا جسے لڑکی کو بھگا کر شادی کرنے کے لیے پیسے درکار تھے، تفتیش کے دوران اس نے دیگر ملزمان کا بھی پتہ بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں بچے کی باحفاظت واپسی کی امید تھی تاہم اسے زندہ حالت میں بازیاب نہیں کرایا جاسکا جبکہ میڈیکو لیگل افسر کے مطابق بچہ بازیاب کرائے جانے سے 24 سے 36 گھنٹوں قبل ہی جاں بحق ہوچکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے بچے کی تلاش کے لیے علاقے میں گھر گھر تلاشی سمیت متعدد کوششیں کی تھیں تاہم ایک ملزم جو بچے کا رشتہ دار تھا، نے پولیس کو مدد کرنے کے بہانے پولیس کی کوششوں کی معلومات حاصل کرلی تھیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ڈر تھا کہ گھر گھر تلاشی کے دوران وہ گرفتار ہوجائیں گے جس کی وجہ سے انہوں نے بچے کو الماری میں بند کرکے گھر سے فرار ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کو یہ بھی خوف تھا تھا کہ متاثرہ بچہ تاوان ملنے کے بعد رہائی ملنے پر اپنے رشتے دار کی شناخت بتادے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں