اسرائیلی وزیر اعظم کی کرپشن مقدمات پر استثنیٰ کی درخواست

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2020
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران استثنیٰ کی درخواست کی— فوٹو: اے پی
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران استثنیٰ کی درخواست کی— فوٹو: اے پی

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے خلاف جاری کرپشن، رشوت ستانی اور دھوکا دہی کے مقدمات میں پارلیمنٹ سے استثنیٰ کی درخواست کردی ہے جس سے ان کے خلاف جاری تحقیقات التوا کا شکار ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ نیتن یاہو پر گزشتہ سال نومبر میں رشوت ستانی، دھوکا دہی اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی فرد جرم عائد کی گئی تھی جہاں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تحائف اور اپنے حق میں میڈیا کوریج کے بدلے اسرائیلی میڈیا اداروں کو کروڑوں ڈالر دیے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی وزیر اعظم پر کرپشن،دھوکے وعوام کو ٹھیس پہچانے کی فرد جرم عائد

تاہم نیتن یاہو نے ان تمام تر الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور میڈیا کی جانب سے انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے درخواست کی مدت کے خاتمے سے محض 4گھنٹے قبل ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران یہ اعلان کیا جبکہ استثنیٰ کی درخواست کے بعد نیتن یاہو کے خلاف کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی۔

نیتن یاہو نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ان پر مقدمے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے اور وہ پارلیمنٹ کی طرف سے تحفظ کے مستحق ہیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران مستقل اقتدار میں رہنے والے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ جمہوریت میں صرف لوگ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی قیادت کون کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پہلی بار ایک ہی سال میں اسرائیل میں دوسرے انتخابات

یہاں یہ واضح رہے کہ اسرائیل کے قانون کے تحت کوئی بھی رکن پارلیمنٹ متعدد وجوہات کی بنیاد پر استثنیٰ کی درخواست کر سکتا ہے جس میں سب سے اہم اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ استغاثہ کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔

اگر نیتن یاہو نے بدھ کو استثنیٰ کی درخواست دائر نہیں کرتے تو ان کے خلاف اتوار تک کسی عدالت میں فرد جرم کی درخواست دائر کی جاسکتی تھی جس کے بعد کارروائی کا آغاز عمل میں لایا جاتا۔

تاین موجودہ سیاسی بحران کے سبب پارلیمنٹ کی جانب سے 2مارچ کو ہونے والے انتخابات سے قبل مذکورہ مسئلے کا حل مشکل نظر آتا ہے۔

استثنیٰ کے لیے نیتن یاہو کو 120اراکین میں سے 61کی حمایت درکار ہے اور یہ وہی اکثریت ہے جو اپریل اور ستمبر میں انتخابات کے بعد انہیں حکومت بنانے کے لیے درکار تھی تاہم اکثریت نہ ملنے پر وہ حکومت نہیں بناسکے تھے۔

لہٰذا اگر پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے نیتن یاہو کو استثنیٰ دیا جاتا ہے تو اسرائیلی سپریم کورٹ کے پاس اس فیصلے پر نظرثانی اور اسے منسوخ کرنے کا اختیار موجود ہے۔

مزید پڑھیں: بدعنوانی کے الزامات، اسرائیلی وزیراعظم سے 12ویں مرتبہ تفتیش

علاوہ ازیں استثنیٰ کی درخواست کے بعد نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل خطرات سے دوچار ہو گیا ہے جہاں مخالفین انہیں ایک مطلق العنان حکمران قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور وہ اسرائیلی جمہوری اور عدالتی بنیادوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

ادھر نیتن یاہو کی تقریر کے جواب میں ان کے سب سے بڑے حریف اور افواج کے سابق سربراہ بینی گینٹز نے کہا کہ ہمیں بنیادی شہری اصول سکھائے گئے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نے انہیں خطرے میں ڈال دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں