پرویز مشرف نے سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2020
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا —تصویر: فیس بک
خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا —تصویر: فیس بک

اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 65 صفحات پر مشتمل درخواست پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں دائر کی۔

اس کے ساتھ ہی عدالت میں ایک اور درخواست بھی دائر کی گئی جس میں حتمی فیصلہ سنائے جانے تک خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی گئی۔

واضح رہے کہ ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے 17 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار

سابق صدر کی درخواست میں وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

سپریم کورٹ میں دائر متفرق درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل آئین اور ضابطہ فوجداری کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران خصوصی عدالت نے 6 مرتبہ آئین کی خلاف ورزی کی اور پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ خصوصی عدالت نے 5 مرتبہ سزائے موت سنائی تھی جسے کالعدم قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

درخواست گزار کا موقف تھا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

‏درخواست میں مزید کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سنایا، انہیں کوئی وکیل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور غیر حاضری میں ہی ٹرائل کیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں اور انہیں بیان ریکارڈ کروانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا، انصاف کا قتل نہ ہو اس لیے مقررہ قانون مدت کے دوران اپیل دائر کی۔

درخواست میں یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اس وقت کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے کے لیے کابینہ سے بھی منظوری بھی نہیں لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں‘

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیر آئینی تھی اس لیے اس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ 13 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا تھا کہ سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس بھی قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔

وفاقی حکومت اور پرویز مشرف دونوں کے وکلا کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دینے کے بعد سزائے موت کا فیصلہ بھی کالعدم تصور ہوگا۔

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں