قلعے میں شادی کی تقریب: غفلت برتنے پر والڈ سٹی اتھارٹی کا افسر برطرف

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2020
افسران تیاریوں سے ہی تقریب کی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا — فائل فوٹو: فیس بک
افسران تیاریوں سے ہی تقریب کی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا — فائل فوٹو: فیس بک

لاہور: والڈ سٹی اتھارٹی نے یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے گئے شاہی قلعے میں مبینہ طور پر شادی کی تقریب کے انعقاد پر اپنے ڈائریکٹر مارکیٹنگ، ٹورازم اینڈ کلچر کو عہدے سے برطرف کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتھارٹی نے ڈیپوٹیشن پر آئے آصف ظہیر کی خدمات بھی سروسز اینڈ جنرل ایدمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کو واپس کردیں تا کہ انہیں ان کے اصل محکمے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر میں واپس بھیج دیا جائے۔

اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری نے کہا کہ ’لاہور قلعے کے شاہی کچن میں ایک پرائیویٹ کمپنی کی جانب سے مبینہ شادی کی تقریب منعقد کرنے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں ہم نے سینئر افسر آصف ظہیر کو برطرف کردیا اور ان کی خدمات سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو واپس کردیں جو انہیں واپس ان کے محکمے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر بھیج دیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: شاہی قلعے میں شادی کی تقریب پر کمپنی کے خلاف مقدمہ درج

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری نظر میں یہ مذکورہ بالا افسر کی غفلت تھی کہ انہوں نے تقریب کی نگرانی نہیں کی جس کی اجازت پرائیویٹ کارپوریٹ ڈنر کے لیے لے کر مبینہ طور پر شادی کی تقریب (مہندی) میں بدل دیا گیا‘۔

کامران لاشاری نے اعتراف کیا کہ سرکاری عہدیداروں کی غفلت پر نہ صرف حکومت بلکہ ثقافت سے محبت کرنے والوں کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا بلکہ اس عمل سے اتھارٹی کی بھی بدنامی ہوئی۔

کامران لاشاری کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کی تقریب سے قبل تیاریوں میں وقت لگتا ہے اور افسران تیاریوں سے ہی تقریب کی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اتھارٹی کارپوریٹ ڈنرز پر پابندی عائد کردے تو کوئی لاہور کے قلعے میں نہیں آئے گا یہ جگہ صحرا بن جائے گی جہاں صرف جنگلی گھاس اور کتے بھونکیں گے'۔

مزید پڑھیں: ماضی کی گزرگاہیں، لاہور کا اصل تاریخی ورثہ

انہوں نے کہا کہ والڈ سٹی اتھارٹی نے 50 سال کے طویل عرصے کے بعد شاہی کچن کو بحال کیا، اس سے قبل یہ جگہ صحرا کا منظر پیش کرتی تھی۔

واضح رہے کہ ایک کاروباری گروپ کی جانب سے قلعے کو شادی کی تقریب کے لیے استعمال کرنے کی رپورٹس ذرائع ابلاغ میں آنے پر وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری اور اعلیٰ حکام نے سخت نوٹس لیا اور تاریخی ورثے میں شادی کی اجازت دینے میں ملوث تمام افراد کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس کے علاوہ واقعے کا مقدمہ لاہور کے تھانہ تبی سٹی میں ڈبلیو سی ایل اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے کے مطابق 'فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ نے شاہی قلعہ کے شاہی کچن میں پرائیویٹ ڈنر کی اجازت لی تھی (لیکن) جب مدعی فنکشن چیک کرنے آیا تو دیکھا کہ کمپنی کے ایگزیکٹو ایڈمن اسجد نواز چیمہ نے اتھارٹی کی اجازت کی شق نمبر 12 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرائیویٹ ڈنر کو شادی کی تقریب میں تبدیل کردیا‘۔

مذکورہ عہدیدار نے بارہا منتطمین کو تقریب منعقد نہ کرنے کا کہا لیکن انہوں نے بات ماننے کے بجائے دیر تک تقریب جاری رکھ کر میرج فنکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کے جرم کا بھی ارتکاب کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں