اراکین پارلیمنٹ نے سندھ کو جبری مذہب تبدیلی کا گڑھ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2020
اراکین پارلیمنٹ نے 6ماہ میں تجاویز کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اراکین پارلیمنٹ نے 6ماہ میں تجاویز کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اقلیتی برادری کو جبری تبدیلی مذہب سے تحفظ کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی نے سندھ کو اس طرح کے واقعات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں مذہب کی جبری تبدیلی کے سب سے زیادہ واقعات میں رونما ہو رہے ہیں اور کچھ مذہبی گروپس مجرمانہ حرکتوں کے ذریعے بھی کمسن بچیوں کی مذہبی کی تبدیلی کو قانونی تصور کرتے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں جمعے کو منعقدہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی 6ماہ میں تجاویز کو حتمی شکل دے دے گی۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ حساس، سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے اور معاملے کی تمام تر معلومات کے لیے کمیٹی اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کسی بھی چیز سے زیادہ مذہب کے نام پر ہوئیں، ہمیں محتاط ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ ریاست کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ بھی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر انوار الحق قادری اور دونوں ایوانوں کے اراکین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے اکثر کیسز غلط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مبینہ جبری مذہب تبدیلی: پنجاب حکومت، سکھ برادری سے مذاکرات کرے گی

وزیر مذہبی امور نے دو افراد کی لڑائی کے دوران کچھ لوگوں کی جانب سے عائد کیے جانے والے توہین مذہب کے جھوٹے الزام کی جانب بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسئلہ ہے اور ہم اس پر قابو پانے کے ذمے دار ہیں۔

انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ تمام متعلقہ افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو پاکستان میں نہ پھیلنے دیا جائے اور اور ہم ایسی ذہنیت کے افراد کو پروان نہ چڑھنے دیں۔

کمیٹی کو پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے معلومات فراہم کی گئیں جن میں تحریک انصاف کے قانون ساز ڈاکٹر رمیش کمار ونکانی بھی شامل تھے جنہوں نے کہا کہ اسی معاملے پر پارلیمنٹ میں ان کا بل زیر التوا ہے۔

ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ وقت بدل رہا ہے اور ہمیں اس دور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمسن لڑکیوں کے اغوا، شادی اور اسلام کی جانب منتقلی کے اعلان کی حوصلہ افزائی کرنے والے افراد کو پیچھے دھکیل دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: گھوٹکی کی نومسلم لڑکیوں کو تحفظ کیلئے سرکاری تحویل میں دینے کا حکم

پاراچنار سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سجاد طوری نے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات سب سے زیادہ سندھ میں رونما ہوتے ہیں جس کے بعد پنجاب کا نمبر آتا ہے جبکہ سابقہ فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں غیرمسلموں کو ہراساں نہیں کیا جاتا۔

سجاد طوری نے کہا کہ سکھ اور ہندو دور دراز گاؤں میں رہتے ہیں، ہم طالبان سے انہیں بچانے کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں، وہاں ہر کوئی خوش ہے لہٰذا ہمیں اس بحث کو متاثرہ علاقوں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔

رکن قومی اسمبلی لال چند نے حکومت سندھ کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی کیونکہ یہ معاملہ حکومت کے تمام اداروں اور متعلقہ حکام کو اعتماد میں لے کر ہی انجام دیا جا سکتاہے۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام صوبوں کا دورہ کر کے صوبائی، ضلعی، شہری حکومت اور پولیس حکام سے ملاقات کرے گی تاکہ مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے رپورٹنگ، تشخیص، نگرانی اور فوری رسپانس کا مربوط نظام مرتب کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی سے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم

یہ بھی بتایا گیا کہ مذہبی کی جبری تبدیلی کے حوالے سے بل سندھ اسمبلی سے منظور کر لیا گیا تھا تاہم بعد میں کچھ جماعتیں اس سے دستبردار ہو گئی تھیں۔

سینیٹر کاکڑ نے کہا کہ ہم سندھ میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان افراد سے ملاقات کریں گے جن پر مذہب کی جبری تبدیلی کا الزام ہے۔

اجلاس میں سینیٹر ڈاکٹر سکندر مندھرو، سینیٹر نعمان وزیر خٹک اور رکن قومی اسمبلی جے پرکاش، لال چند، ڈاکٹر درشن، کیشو مل کھیل داس، شگفتہ جمانی، رمیش لال اور نوید عامر جیوا نے شرکت کی۔


یہ خبر 15جنوری 2019 بروز ہفتہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں