مبینہ جبری مذہب تبدیلی: پنجاب حکومت، سکھ برادری سے مذاکرات کرے گی

اپ ڈیٹ 31 اگست 2019
ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے بعد سکھ لڑکی دارلامان لاہور میں رہائش پذیر ہے— فائل فوٹو: اے پی
ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے بعد سکھ لڑکی دارلامان لاہور میں رہائش پذیر ہے— فائل فوٹو: اے پی

سکھ لڑکی کے مبینہ جبری مذہب تبدیلی کے معاملے پر پنجاب حکومت نے صوبائی وزیر قانون راجا بشارت کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دے دی، جو پاکستانی سکھ برادری کی 30 رکنی کمیٹی سے مذاکرات کرے گی۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ننکانہ صاحب کی جانب سے انسپکٹر جنرل پولیس ( آئی جی پی) پنجاب کو بھیجی گئی مفاہمتی یادداشت کے مطابق 28 اگست کو ننکانہ پولیس اسٹیشن میں 6 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی، جن پر 19 سالہ سکھ لڑکی جگجیت کور کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مفاہمتی یادداشت میں کہا گیا کہ پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کی اور لاہور سے ایک ملزم کو گرفتار کیا جبکہ 3 نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی، اس کے علاوہ دیگر 2 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔

علاوہ ازیں سکھ لڑکی کے وکیل شیخ سلطان سے پولیس نے رابطہ کیا تھا، جس پر انہیں بتایا گیا کہ جگجیت کور نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا

وکیل نے بتایا کہ جگجیت کور نے اسلام قبول کرنے کے بعد محمد حسن سے شادی کی، جس کا نام ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں شامل ہے۔

شیخ سلطان نے مزید کہا کہ انہوں نے سکھ لڑکی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں ان کے اہلِ خانہ اور مقامی پولیس کے خلاف ’ غیرقانونی طور پر ہراساں ‘ کرنے سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں سکھ لڑکی نے عدالت میں ایک تحریری بیان بھی جمع کروایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا اور محمد حسن سے شادی کی۔

تحریری بیان میں سکھ لڑکی نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے اہلِ خانہ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔

جس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے مطابق سکھ لڑکی اس وقت دارلامان لاہور میں رہائش پذیر ہے۔

ڈی پی او نے مفاہمتی یادداشت کے ساتھ نکاح اور لڑکی کے مذہب تبدیل کرنے سے متعلق ویڈیو اور دستاویزی شواہد بھی منسلک کیے۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دستاویزات کی کاپیاں بھی منسلک کی گئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 19 سال ہے جبکہ ساتھ ہی نکاح نامہ بھی منسلک کیا گیا۔

عدالت میں لڑکی کے بیانات کے بعد سکھ برادری نے مطالبہ کیا تھا کہ چاہے مذہب جبری طور پر ہوئی یا مرضی سے، لڑکی کو ہر صورت میں اس کے والدین گھر واپس بھیجا جائے۔

ڈی پی او نے آئی جی پی کو آگاہ کیا کہ سکھ برادری مذکورہ واقعے کے خلاف مشتعل ہے اور لڑکی کے اہلِ خانہ کی ویڈیوز سوشل اور بین الاقوامی میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’ یہ درخواست کی جاتی ہے کہ متعلقہ حلقے مذاکرات کریں تاکہ سکھ برادری کو مصروفِ عمل کرکے تسلی دی جاسکے کیونکہ سکھ برادری نے مطالبہ پورا نہ ہونے پر احتجاج کا اعلان کیا ہے‘۔

ڈی پی او نے مزید لکھا کہ ’یہ بات اہم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں ایسے کسی احتجاج سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں