ٹرمپ نے امن معاہدہ پیش کیا تو اوسلو معاہدے سے دستبردار ہوجائیں، فلسطین

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2020
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے—فوٹو: اے ایف پی

فلسطینی حکام نے دھمکی دہے کہ اگر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ سے متعلق امن منصوبے کا اعلان کیا تو وہ اوسلو معاہدے کی کلیدی شقوں سے دستبردار ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ فلسطینی حکام نے اوسلو معاہدے کی جن کلیدی دفعات سے دستبرداری کی دھمکی دی ہے وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وضاحت کرتی ہیں۔

مزیدپڑھیں: امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی اوراس کے ممکنہ اثرات

غیرملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سینئر فلسطینی رہنما اور فلسطینی انتظامیہ کے مذاکراتی امور کے سربراہ صائب اراکات نے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے امن منصوبے کا اعلان کیا تو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اسلو معاہدے کی انتہائی اہم ڈیل کے 'عبوری معاہدے سے دستبردار' ہونے کا مکمل حق رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ' ٹرمپ کا اقدام فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے عارضی قبضے کو مستقل قبضے میں بدل' دے گا۔

اس سے قبل فلسطینی اتھارٹی (پی اے) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ لانے کے اعلان پر خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل اور امریکا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ کریں، اس کو ہمارے عوام قبول نہیں کریں گے۔

ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے تسلیم کیا تھا کہ فلسطینی اس منصوبے پر ابتدائی طور پر منفی ردعمل دے سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت میں ان کے لیے مثبت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 55 فلسطینی جاں بحق، 2400 زخمی

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دورہ واشگنٹن کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اور کہا تھا کہ ‘یہ ایک عظیم منصوبہ ہے، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو حقیقی معنوں میں کارآمد ہوگا’۔

یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی اسے مسترد کردیا تھا۔

ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے فلسطینی قیادت کا موقف تھا کہ چونکہ امریکی صدر کی پالیسیاں اسرائیل نواز ہیں اس لیے ان کا معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ سے سیاسی ملاقاتوں کا بھی بائیکاٹ کردیا تھا۔

فلسطین نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا جس کی عالمی سطح پر دیگر ممالک نے بھی حمایت کی تھی۔

فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیرقانونی قرار دیتا ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔

مزیدپڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

امریکی صدر نے 6 دسمبر 2017 کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کچھ امریکی صدور نے کہا کہ ان میں سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی ہمت نہیں لیکن بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں