سپریم کورٹ: ایف بی آر کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سے تعاون کی ہدایت

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2020
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر درخواستوں پر سماعت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجا اور عابد حسین منٹو کے وکیل و دیگر افراد پیش ہوئے۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے منسوب جائیدادوں کے ذرائع آمدن غیر ملکی ہیں، غیر ملکی ذرائع آمدن ہوں تو منی لانڈرنگ، حوالہ یا ہنڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا قانون کو اپنا راستہ اپنانے دیا جائے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ گوشوارے درست نہ ہوں تو کیا ججز سے ٹیکس حکام وضاحت لے سکتے ہیں؟ کیا ججز کو ٹیکس معاملات میں استثنیٰ حاصل ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ججز کو استثنیٰ حاصل نہیں، ٹیکس حکام سوال پوچھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں'

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اہلیہ اور بچوں سے ذرائع آمدن پوچھے بغیر جج پر الزام عائد کیا گیا، ججز پر ایسے ہی الزامات لگتے رہے تو ان کا وقار کیا رہ جائے گا؟ جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کا وقار مجروح کیا گیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو عالمی سطح کی (فراڈن) دھوکا دینے والی کہا گیا اور ان کی اہلیہ کے اسپینش نام کی اسپیلنگ سمجھ نہ آنے پر انہیں فراڈ کا مرتکب قرار دیا گیا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل صرف حقائق جاننے کا فورم ہے، اس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کونسل حقائق جاننے کے ساتھ ساتھ اپنی رائے بھی دیتی ہے۔

ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ ہر ریفرنس ہی چیلنج ہونے لگے گا تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بدنیتی پر مبنی ریفرنس عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس کے بعد جج پر دھبہ لگ جاتا ہے، ریفرنس بنانے میں احتیاط برتی جانی چاہیے، اہلیہ اور بچوں والا نکتہ ہم نے نوٹ کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منیر اے ملک نے کہا تھا کہ وزرا نے ریفرنس پر پریس کانفرنس کی، ریفرنس کی کارروائی میڈیا میں لیک کرنے کا کیا ثبوت ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اخبارات اور ٹی وی کا ریکارڈ فراہم کر دوں گا۔

سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے والدین بھی غیرملکی ہیں، جسٹس عیسی کی اہلیہ اور بچے جواب دیے بغیر باہر جاتے تو نتیجہ کچھ اور نکلتا، میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود ایف بی آر گئیں۔

اسی پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ ایف بی آر گئی ہیں تو مقدمے کا رخ تبدیل ہوجائے گا، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے خود کو ایف بی آر کے سامنے پیش کیا۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ گزشتہ روز ٹیکس حکام کے سامنے پیش ہوئیں، ان کی اہلیہ نے اپنا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا طریقہ معلوم کیا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ کیا جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ جائیدادوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا چاہتی ہیں؟ جج کی اہلیہ الزامات کا جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع ملنا چاہیے، جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر کو جواب عدالت میں بھی پیش کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کیس میں بدنیتی عیاں تھی‘

سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ نئی صورتحال میں کیا صدر مملکت ریفرنس پر کارروائی آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب ہدایات لے کر آگاہ کریں، سب کچھ عدالت پر نہ چھوڑیں، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ عدالتی ہدایات پر عمل کریں گے۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر سے کہا غیرملکی اثاثوں پر انہیں نوٹس کیوں نہیں دیا گیا، ایف بی آر حکام نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

اس دوران عدالت کی جانب سے منیر اے ملک سے مذکورہ معاملے پر استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں جسٹس عیسیٰ کا وکیل ہوں ان کی اہلیہ کا نہیں جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے جوابدہ نہیں۔

سماعت کے دوران عابد حسن منٹو کے وکیل بلال منٹو نے دلائل دیے کہ اٹھارویں ترمیم میں سپریم جوڈیشل کونسل سے ازخود کارروائی کا اختیار واپس لیا گیا، اس پر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ صدر مملکت سے ریفرنس دائر کرنے کا اختیار واپس نہ لینا اہم ہے۔

اس پر بلال منٹو نے کہا کہ صدر نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کے قابل ہے یا نہیں، عام شہری کونسل کو براہ راست شکایت کر سکتا ہے لیکن حکومت نہیں، حکومت ریفرنس صرف صدر کے ذریعے ہی بھجوا سکتی ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وحید ڈوگر کو ججز کے خلاف درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنی چاہیے تھی، ایک موقف یہ آیا کہ صدر ریفرنس کے ساتھ متعلقہ مواد جمع کرنے کا کہہ سکتا ہے، صدر کا یہ کام نہیں کہ اداروں کو مواد جمع کرنے کا کہے، صدر نے جمع شدہ مواد پر ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر خود کیسے اور کہاں سے مواد جمع کرے گا یہ سمجھ نہیں آتا، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بہت دلچسپ نکات اٹھائے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ غیر ملکی جائیدادوں پر جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع دیا جائے۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت تک ایف بی آر سے تفصیلات لے کر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'وزیراعظم بے اختیار ہوئے تو سارا نظام شتر بے مہار ہوجائے گا'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں