پاکستان سائبر کرائم کے عالمی فورم کا حصہ کیوں نہیں؟

اپ ڈیٹ 02 فروری 2020
حکومت نے عدالت کو بتایا کہ کنونشن کے حوالے سے آخری ملاقات 22 جنوری کو ہوئی—فائل/فوٹو:رائٹرز
حکومت نے عدالت کو بتایا کہ کنونشن کے حوالے سے آخری ملاقات 22 جنوری کو ہوئی—فائل/فوٹو:رائٹرز

وفاقی وزارت داخلہ نے لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے تحفظات کے باعث پاکستان نے تاحال سائبر کرائم کے بداپسٹ کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔

عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا میں مواد کی موجودگی کے حوالے سے زیر سماعت ایک مقدمے میں وزارت داخلہ نے تحریری بیان میں کہا کہ کنونشن میں دستخط کے لیے اجلاس آخری مرتبہ 22 جنوری کو ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایجنسیوں نے دستخط کرنے والے ممالک میں اسرائیل کی نشان دہی کرتے ہوئے اس تجویز کی حمایت نہیں کی اور پاکستان نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور تسلیم نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم بل قومی اسمبلی سے منظور

وزارت داخلہ نے کہا کہ بھارت بداپسٹ کنونشن پر دستخط کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچ رہا ہے اس لیے پاکستان کو اس طرح کا انتخاب کرتے ہوئے بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

عدالت میں پیش کردہ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خارجہ امور کی وزارت بھی شامل ہے تاکہ کنونشن کے تمام سیکشنز کو شق وار دیکھا جائے۔

وزارت خارجہ نے اپنے جواب میں کہا کہ بداپسٹ کنونش انتہائی غیر محفوظ ہے اور ہماری دستاویزات پر سمجھوتہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ چین، روس، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور سمیت یورپ سے باہر کئی ممالک کا خیال تھا کہ یہ قدم یورپی یونین کا خطے سے متعلق ہے اور دستاویزات کا تحفظ انتہائی خطرے کا باعث ہے۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب تک میوچل لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) معاہدوں پر سری لنکا کے ساتھ 2006 میں، ازبکستان کے ساتھ 2007، چین کے ساتھ 2010 اور قازقستان کے ساتھ 2001 میں دستخط کرچکا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مامون الرشید شیخ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل سے وزارتوں کے جواب کی روشنی میں مزید دلائل طلب کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں:فیس بک،ٹوئٹر سائبر کرائم کی شکایات میں تعاون نہیں کررہے، ایف آئی اے

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت سے بھی چیف جسٹس گلزار احمد کی سیکیورٹی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک سرکاری خط سے متعلق جواب طلب کرلیا۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اس معاملے پر درخواست دائر کی تھی اور موقف اپنایا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت سے کوئی سیکیورٹی طلب نہیں کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت نے خود ایک نوٹی فکیشن جاری کیا اور بظاہر عدلیہ کو متنازع بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر اس کو وائرل کردیا۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ حکومت کے نوٹی فکیشن کو لیک کرنا بھی سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ذمہ دار کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔


یہ خبر یکم فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں