حکومت پرویز مشرف کو سزا سنانے والے جج کیخلاف ریفرنس سے باز رہے، پی بی سی

اپ ڈیٹ 04 فروری 2020
پاکستان بار کونسل کے نائب صدر نے وفاقی حکومت کو خبر دار کردیا — فائل فوٹو:ڈان
پاکستان بار کونسل کے نائب صدر نے وفاقی حکومت کو خبر دار کردیا — فائل فوٹو:ڈان

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین عابد ساقی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف کسی بھی قسم کا ریفرنس دائر کرنے سے گریز کرے۔

واضح رہے کہ پشاور کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی سربراہی کرتے ہوئے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائی موت سنائی تھی جبکہ اس کیس کے تفصیلی فیصلے میں ایک پیراگراف پر اعتراض سامنے آئے تھے۔

جسٹس وقار سیٹھ کی جانب سے اس کیس کے پیرا گراف 66 میں لکھا گیا تھا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔

بعد ازاں 19 دسمبر کو وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ادھر پی بی سی کے جاری ایک اعلامیے میں نائب صدر نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر آرٹیکل 209 کے تحت حکومت نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی قسم کا ریفرنس دائر کرنے کے لیے اقدامات کیے تو کونسل ملک بھر میں احتجاج کرے گی۔

مذکورہ معاملے پر جب ان سے رابطہ کیا گیا تو عابد ساقی کا کہنا تھا کہ یہ بیان انتباہی طور پر جاری کیا گیا تاکہ حکومت ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ جائے۔

اس کے علاوہ ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے کوئی بھی سنجیدہ تجویز پر غور نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ ریفرنسز ضابطے کی خلاف ورزی پر دائر کیا جاتا ہے، کسی جج کے کسی فیصلے پر نہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ 17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے لکھا گیا خصوصی عدالت کا فیصلہ جرات مندانہ اور تاریخی تھا کیونکہ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی آمر کے خلاف آئین توڑنے پر فیصلہ سنایا گیا تھا۔

اس فیصلے کا نہ صرف خیرمقدم کیا گیا بلکہ پوری قوم نے خاص طور پر قانونی برادری کی طرف سے اس کی تعریف بھی کی گئی تھی کیونکہ اس نے نہ صرف آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کیا بلکہ آئین میں درج جمہوری عمل کے تسلسل کو بھی یقینی بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ نے 2 اہم قانونی نکات اٹھادیے

بیان میں کہا گیا کہ ایسا سمجھا جارہا کہ وفاقی حکومت جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرے گی جو سخت تشویش کا باعث ہے اور اس طرح کا کوئی اقدام عدلیہ کی آزادی کو نشانہ بنانے اور اسے دبانے کے مقاصد پر مبنی ہوگا۔

یاد رہے کہ وکلا برادری نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا پر ضابطوں کے خلاف کام کرنے پر دائر کیے گئے ریفرنسز پر بھی رد عمل دیا تھا۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ کا 10 رکنی فل بینچ سماعت کر رہا ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں