جسٹس عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ نے 2 اہم قانونی نکات اٹھادیے

اپ ڈیٹ 03 فروری 2020
صدر مملکت نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوایا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
صدر مملکت نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوایا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اثاثہ جات برآمدی یونٹ (اے آر یو) کے اختیارات سمیت 2 قانونی نکات اٹھادیے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل اور درخواست گزار کے وکیل بلال منٹو و دیگر پیش ہوئے۔

اس موقع پر بلال منٹو نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 209 میں ترمیم کی گئی، آئینی ترمیم میں ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیارات کو نہیں چھیڑا گیا، آرٹیکل 209 کے تحت صدر کا کردار آزادانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو آرٹیکل 209 میں وزیراعظم کے مشورے کا پابند نہیں کیا جا سکتا، 18ویں ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو آزاد کر دیا گیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں جج کے خلاف ریفرنس پر کارروائی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ایف بی آر کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سے تعاون کی ہدایت

اس پر بلال منٹو نے کہا کہ حکومت صرف صدر کو جج کے خلاف معلومات فراہم کرسکتی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟ اگر کوئی جج کےخلاف درخواست حکومت کو دینا چاہے تو کیا ہوگا؟

ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کوئی سیاسی جماعت بھی صدر سے ریفرنس کے لیے رجوع کر سکتی ہے؟

اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ صدر مملکت کو سیاسی وابستگی سے بالاتر اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، صدر مملکت غیر جانبدار نہیں ہوگا تو سیاسی قوت کے دباؤ کا شکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ فیصلوں پر ججز کو ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے جبکہ بدنیتی سے دائر ریفرنس کے بھی نتائج ہیں۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے متعلق رپورٹ جمع کروائی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اپنے گوشوارے کراچی میں فائل کررہی ہوں، وہ کہتی ہیں کہ جب آمدن قابل ٹیکس نہیں رہی تب ریٹرن فائل نہیں کیے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد سے ریکارڈ کراچی منتقل کرنے کی درخواست کی ہے، ایف بی آر کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ آن لائن سہولت کے ذریعے کہیں سے بھی ریٹرن فائل کرسکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے 2012 اور 2013 میں آن لائن ریٹرن فائل کیے، ایف بی آر کے مطابق اہلیہ جسٹس عیسیٰ کو 2015 کے بعد ریٹرن نہ جمع کروانے پر نوٹس کیے گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ریٹرن کا ریکارڈ کراچی بھجوادیا ہے جبکہ انہیں بھی ایف بی آر کی رپورٹ سے آگاہ کردیا ہے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ آپ دلائل کب دیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے مقدمے کی تیاری کے لیے عدالت سے وقت مانگنے کی استدعا کی اور کہا کہ عدالت کے ہر سوال کا جواب دوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ پہلا نکتہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اثاثہ جات برآمدی یونٹ کو کس نے دیا، کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ ان دونوں قانونی نکات کے جواب بہت اہم ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں'

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں